|

وقتِ اشاعت :   3 hours پہلے

کوئٹہ:  بلوچستان حکومت کے حکام صوبائی وزیر پی ایچ ای سردار عبدالرحمن کھیتران، ترجمان حکومت بلوچستان شاہد رند ، ڈی آئی جی سی ٹی ڈی اعتزاز احمد گورایہ نے کہا ہے کہ کہ موسیٰ خیل میں ڈیڑھ ماہ قبل 22 مسافروں کو بسوں سے اتار کر قتل کرنے کے واقعہ میں ملوث کالعدم بلوچ لبریشن آرمی نے کارروائی کے لیے سکولز اور کالجز کے طلباء اور بچوں کو استعمال کیا۔

اس دہشتگرد گروہ کے 3ارکان کو کارروائی میں ہلاک اور 2کو گرفتار کرلیاگیا جبکہ دیگر کی گرفتاری کے لیے موسی خیل، لورالائی ، دکی سمیت ملحقہ علاقوں میں گزشتہ دو روز سے آپریشن جاری ہے۔

یہ بات انہوں نے گزشتہ روز سول سیکرٹریٹ کوئٹہ میں کالعدم بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے)کے طلعت عزیز کی جانب سے ہتھیار ڈال کر قومی دھارے میں شامل ہونے کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔

اس موقع پر کالعدم تنظیم کو چھوڑنے والے طلعت عزیز نے صوبائی حکام کے ہمراہ گفتگو کرتے ہوئے بتایاکہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے احتجاج میں میری ذہن سازی کی گئی، مجھے قائل کیا گیا کہ معصوملوگوں کو قتل کروں مجھے کہا گیا کہ پہاڑوں پرنئی زندگی ملے گی،

میری طرح پہاڑوں پراوربھی نوجوان موجود تھے۔انہوں نے بتایاکہ کالعدم بی ایل اے سے پوچھا کہ آپ یہ سب کیا کررہے ہیں؟

انہوں نے کہا کہ کالعدم تنظیم کے لوگ کیمپوں میں بیٹھ کرپنجابیوں کومارنے کی منصوبہ بندی کرتے تھے اور ملک توڑنے کی سازش کررہے تھے، جب پہاڑوں پر سب دیکھا توبھاگنے کا منصوبہ بنایا۔

طلعت عزیز کا کہنا تھاکہ اپنے تمام بلوچ بہن بھائیوں سے کہتا ہوں ایسے لوگوں کی باتوں میں نہ آئیں، بلوچ یکجہتی کمیٹی کے جلسوں میں ذہن سازی کرکے گمراہ کیا جاتا ہے اور مجھے ان لوگوں نے اتناگمراہ کیا کہ میں نے اپنے اور اپنے خاندان کی عزت کے بارے میں بھی نہیں سوچاحالانکہ میں پنجاب سے تعلیم حاصل کر رہا ہوں، میری پنجابیوں سے کوئی دشمنی نہیں۔

اس موقع پر صوبائی وزیرسردار عبدالرحمان کھیتران نے کہا کہ ریاست کبھی کمزور تھی نا ہے نا ہوگی، دہشت گردوں کے خلاف گھیرا تنگ کریں گے یہ کون سی قومیت ہے کہ معصوم بچے کو شہید کرکے آپ آزادی لیناچاہتے ہیں؟ کیا یہ آزادی ہے یا وحشی پن ہے، دہشت گرد نہتے لوگوں کو نشانہ بناتے ہیں،یہ وحشی لوگ ہیں۔ان کا کہنا تھاکہ پنجابی سے نفرت کے تاثر کو مٹاکر چھوڑیں گے،

امن قائم کریں گے، طلعت عزیز اپنی تعلیم مکمل کرے گا اورپنجاب حکومت بھی معاونت کرے گی۔صوبائی حکومت کے ترجمان اور ڈی آئی جی سی ٹی ڈی نے بتایا کہ موسی خیل کے علاقے راڑہ شم میں کارروائی کے دوران تین دہشتگرد مارے گئے اور دو پکڑے گئے۔

گرفتار دہشتگردوں نے دوران تفتیش بہت سارے انکشافات کئے۔

انہوں نے خود حملے میں عملی طور پر ملوث ہونے اور ہتھیاروں کی سپلائی کا اعتراف کیا۔ڈی آئی جی کے مطابق ہمیں واقعہ میں ملوث تمام دہشتگردوں اور سہولت کاروں کے بارے میں معلوم ہوگیا ہے۔یہ بھی پتہ چل گیا ہے کہ کون کمان کررہا تھا کہاں منصوبہ بندی ہوئی ،

کس نے سہولت فراہم کی ، کس نے اسلحہ اور کھانا پہنچایا اور کس نے کیمپ کے لئے جگہ دی۔ان کا کہنا تھا کہ موسی خیل میں مسافروں کو قتل کرنیوالا یہی گروہ دکی سے کوئلہ کانوں سے بھتہ لینے میں بھی ملوث ہے۔گرفتار ہونیوالوں میں ایک سولہ سالہ لڑکا بھی شامل ہے

جس نے دوران تفتیش بتایا کہ بچوں کو بھی اس کارروائی میں استعمال کیاگیا کیونکہ نقل و حمل کے دوران بچوں کی اس طرح تلاشی نہیں ہوتی۔ وہ بھی انہیں اسلحہ کی ترسیل وغیرہ کے لیے استعمال کررہے ہیں۔ڈی آئی جی نے کہا کہ کالعدم بلوچ لبریشن آرمی کے ایک اور دہشتگرد تنظیم کے ساتھ رابطے ثابت ہوئے ہیں جو وہاں پر موجود ہیں جن سے یہ اسلحہ بھی خریدتے ہیں۔

ڈی آئی جی کا کہنا تھا کہ موسی خیل واقعہ کے بعد کچھ کڑیاں گمشدہ تھیں کیونکہ اس علاقے میں پہلے کبھی دہشتگردی کی کارروائی نہیں ہوئی اب تحقیقات کے دوران ہم نے ان گمشدہ کڑیوں کا پتہ لگالیا ہے۔ ہمیں معلوم ہوگیا ہے

کہ کس طرح دہشتگردوں نے چھوٹے جرائم کرنیوالوں کو بھرتی کیا اور انہیں پیسے دیئے۔ اس کے علاوہ انہوں نے چھوٹے بچوں ،سکول اور کالجز کے ایسے طالبعلموں کو پچاس پچاس ہزار روپے دے کر بھرتی کیا جن کے مالی حالات اچھے نہیں تھے۔

دکی حملے میں ملوث دہشتگردوں کی جانب سے پشتو زبان بول کر توجہ ہٹانے کی کوشش کی گئی۔

ڈپٹی کمشنر پنجگور کے واقعہ کی تحقیقات سے بھی پتہ چلا کہ بی ایل اے اس میں ملوث ہے لیکن بی ایل اے نے اس کی بھی تردید کی۔ کالعدم تنظیمیں ایسے واقعات کی ذمہ داری قبول نہیں کرتی جس میں وہ مقامی لوگوں کو نشانہ بناتی ہے۔

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *