|

وقتِ اشاعت :   3 hours پہلے

نجکاری کمیشن نے پی آئی اے کی کم از کم قیمت 85 ارب 3 کروڑ روپے رکھی ہے۔
اب ایک بیرون ملک موجود پاکستانی گروپ نے پاکستان انٹرنیشنل ائیرلائن کو سوا کھرب روپے سے زائد میں خریدنے کی پیشکش کردی ہے۔
پاکستانی گروپ کی جانب سے 250 ارب روپے واجب الادا قرضہ بھی ادا کرنے پر آمادگی ظاہر کی گئی ہے۔
النہانگ گروپ کی جانب سے حکام کو ای میل کی گئی جس میں کہا گیا کہ ملازمین کی چھانٹی نہیں کی جائے گی، تنخواہوں میں اضافے اور جدید طیارے شامل کرنے کی بھی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔
گروپ نے پی آئی اے کی خریداری کے حوالے سے وزیر نجکاری، وزیر ہوا بازی اور وزیر دفاع سمیت دیگر متعلقہ حکام کو ای میل ارسال کیا ہے۔
اس سے قبل ایک کمپنی نے 50 فیصد حصص خریدنے کے لیے 10 ارب روپے کی بولی لگائی تھی جبکہ کے پی اور پنجاب حکومت نے بھی پی آئی کو خریدنے کی پیشکش ظاہر کی تھی مگر بولی کی رقم نہیں بتائی گئی۔
اب تک سب سے بڑی بولی النہانگ گروپ کی جانب سے لگائی گئی ہے اور ساتھ ہی اس بات کی بھی گارنٹی دی جارہی ہے کہ ملازمین کو نہیں نکالا جائے گا نیز تنخواہوں میں اضافہ اور جدید طیارے خریدنے پر آمادگی ظاہر کی گئی ہے۔
حکومت قومی اداروں کی نجکاری خسارے میں جانے کی وجہ سے کررہی ہے تاکہ قومی خزانے پر بوجھ کو کم کیا جاسکے ۔
دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں بیشتر پرائیویٹ ادارے ہی سرمایہ کاری کرتے ہیں مگر وہ ریاستی قوانین اور معاہدے کے تحت اداروں کو چلاتے ہیں اور ریاست کو مالی فائدے پہنچاتے ہیں ،ساتھ ہی ملازمین کو ہر قسم کی سہولیات بھی فراہم کرتے ہیں۔
بدقسمتی سے ہمارے یہاں اداروں کی پرائیوٹائزیشن کے بعد نجی کمپنیاں معاہدے کے برعکس اپنے منافع کو ترجیح دیتے ہیں اورملازمین کا استحصال کرتے ہیں جس کی واضح مثال بجلی کی کمپنیاں ہیں جو صارفین کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہی ہیںاور بجلی بھی فراہم نہیں کررہیں، کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنی کی کارکردگی سب کے سامنے ہے ، نجی شعبے میں جانے کے بعد بھی ہر سال یہ حکومت سے سبسڈی لیتی ہے یعنی نجی شعبے میں جانے کے بعد بھی اس کا خسارہ حکومت برادشت کررہی ہے۔
پی ٹی سی ایل کی نجکاری کی گئی تو کمپنی نے ہزاروں کی تعداد میں ملازمین کو نکال دیااور جو ملازمین بچ گئے ان پر کام کا بوجھ بہت بڑھ گیا، تنخواہوں سے متعلق بھی ملازمین میں بے چینی پائی جاتی ہے۔
اسی طرح دیگر شعبوں میں بھی پرائیویٹ پارٹنر شپ میں کام کرنے والی کمپنیوں کی کارکردگی مایوس کن دکھائی دے رہی ہے۔
اب حکومت نے تمام تر معاملات کو دیکھنا ہے اگر اداروں کی نجکاری اور پرائیویٹ پارٹنر شپ کے ذریعے چلانا ہے تو اس میں سنجیدگی حکومت کی ہونی چاہئے کہ آیا یہ کمپنیاں معاہدے کے تحت پوری ذمہ داری کے ساتھ کام کررہی ہیں اگر نہیں کررہیں تو حکومت تمام تر معاملات اپنے ہاتھوں میں لینے میں حق بجانب ہے کیونکہ نجکاری اور پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت اداروں کے ساتھ کام کرنے کا مقصد مالی فوائد حاصل کرنے کے ساتھ اپنے لوگوں کو سہولیات بھی فراہم کرنا ہے۔
بہرحال پی آئی اے کی نجکاری کے حوالے سے یہ بڑی بولی سامنے آئی ہے ،نجکاری کمیشن اب اس پر غور کرے گی اور دیگر کمپنیوں کی جانب سے مزید بولیوں کا انتظار کیا جائے گا اورپھرفیصلہ کیا جائے گا مگر ملکی مفاد اور عوام کی سہولیات کومد نظر رکھتے ہوئے حتمی فیصلہ کیا جائے اس بات کو ضرور یقینی بنانا ہوگا کہ نجی کمپنیاں استحصالی پالیسی کی بجائے ریاست خاص کر ملکی معیشت میں مثبت تبدیلی لانے کا موجب بنیں نہ کہ بوجھ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *