|

وقتِ اشاعت :   November 9 – 2024

بلوچستان میں بدامنی ایک دیرینہ مسئلہ ہے، چند دنوں میں یہ دہشت گردی کا دوسرا واقعہ ہے جو کوئٹہ ریلوے اسٹیشن پر پیش آیا ہے ۔

سانحہ مستونگ کے بعد گزشتہ روز کوئٹہ میں ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر خودکش دھماکے میں خاتون سمیت 25 سے زائد افراد جاں بحق جبکہ 50 سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔

ریلوے حکام کے مطابق جعفر ایکسپریس نے ہفتہ کی صبح 9 بجے پشاور کے لیے روانہ ہونا تھا، ٹرین ابھی تک پلیٹ فارم پر نہیں لگی تھی کہ دھماکا ہوا، دھماکا ریلوے اسٹیشن پر ٹکٹ گھر کے قریب ہوا۔

کمشنرکوئٹہ محمد حمزہ شفقات نے تصدیق کی ہے کہ ریلوے اسٹیشن پردھماکا خودکش تھا، خودکش بمبار سامان کے ساتھ ریلوے اسٹیشن میں داخل ہوا، ایسے کسی شخص کو روکنا مشکل ہوتاہے جو خودکش حملے کے لیے آئے۔

وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے دھماکے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اعلیٰ حکام سے رابطہ کرتے ہوئے واقعے کی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے اور رپورٹ طلب کر لی ہے۔

وزیر اعلیٰ بلوچستان کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے متعدد واقعات میں ملوث عناصر تک پہنچ چکے ہیں، صوبے میں دہشت گردوںکے خلاف کارروائیاں جاری ہیں، متعدد واقعات میں ملوث دہشت گرد پکڑے جا چکے ہیں، بلوچستان سے دہشت گردوں کا قلع قمع کریں گے۔

کوئٹہ دھماکے کی صدر مملکت، وزیراعظم، وفاقی وزیر داخلہ نے بھی مذمت کی ہے۔

بہرحال ریلوے اسٹیشن پر عوام کا جم غفیر رہتا ہے جہاں سے لوگ اپنے آبائی علاقوںکو آتے جاتے ہیں، معصوم شہری اس طرح کے واقعات کی زد میں آتے ہیں جس کی ہر سطح پر مذمت ہی کی جاسکتی ہے ۔

بہرحال بلوچستان میں بدامنی کے واقعات کو روکنے کیلئے تمام تر ذرائع کااستعمال ضروری ہے۔ طاقت کا استعمال مسئلے کا حل نہیں بلکہ ڈائیلاگ کے ذریعے ہی گشیدگی میں کمی لائی جاسکتی ہے جس میں دونوں فریقین کا متفق ہونا ضروری ہے۔ طاقت کے استعمال سے مزید تباہی ہوگی جس کا کوئی بھی نتیجہ برآمد ہوسکتا ہے۔

بلوچستان کے تمام اسٹیک ہولڈرز کا کردار اہمیت رکھتا ہے جنہیں ایک میز پر بیٹھنا ہوگا ،جو گلے شکوے ناراضگیاں ہیں انہیں دور کرنے کیلئے راستہ نکالنے کی کوشش کی جائے کیونکہ دنیا کی جنگی تاریخ گواہ ہے کہ شورش سے تباہی آتی ہے جس سے اپنے ہی لوگ متاثر ہوتے ہیں۔

ماضی میں بلوچستان میں قیام امن کیلئے متعدد بار کمیٹیاں تشکیل دی گئیں مگر ان کے مثبت نتائج برآمد نہیں ہوئے جس کی وجوہات کو تلاش کرنا ضروری ہے کہ کس طرح سے صوبیمیں دیرپا امن کیلئے بعض نکات پر اتفاق ہوسکے اور ڈائیلاگ کے ذریعے امن کی طرف پیش قدمی کی جاسکے ،اس کیلئے یقینا سنجیدگی بہت ضروری ہے جو دونوں اطراف سے دیکھنے کو ملنی چاہئے ۔

بلوچستان ایک قبائلی معاشرہ ہے اس میں قبائلی عمائدین کاکرداربھی اہمیت رکھتا ہے جن کے ساتھ بیٹھ کر بات چیت کیلئے راستہ نکالا جاسکتا ہے۔

سب سے پہلے صوبائی اور وفاقی حکومتی سطح پر ایک بااختیار کمیٹی تشکیل دی جائے جس میں بلوچستان کی تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں، قبائلی عمائدین، انسانی حقوق کی تنظیمیں، سول سوسائٹی کے نمائندگان جبکہ حسب ضرورت بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافیوں کو بھی اس کمیٹی میں مناسب نمائندگی دی جائے، ان کوششوں سے ایک راستہ نکل سکتا ہے، ناممکن کچھ بھی نہیں اگر مستقل مزاجی کے ساتھ مسائل کے حل کیلئے موثر اقدامات اٹھائے جائیں ۔

اس سے امید کی کرن پیدا ہوسکتی ہے اور مذاکرات کے دروازے بھی کھل سکتے ہیں جو بلوچستان کے وسیع تر مفاد میں ہے۔ جنگ صرف تباہی لاتی ہے جس سے بلوچستان کے ہی لوگ متاثر ہونگے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *