ملک میں معاشی چیلنجز سے نمٹنے کیلئے موجودہ حکومت مختلف آپشنز پر کام کررہی ہے۔
ملک میں معاشی مسائل میں سب سے بڑے چیلنجز میں ٹیکس وصولی اور بیرونی سرمایہ کاری شامل ہے لیکن ٹیکس اہداف کو پورا کرنے میں بہت دشواری پیدا ہورہی ہے جس کیلئے ایف بی آر کو ڈیجیٹلائز کرنے پر کام کیا جارہا ہے تاکہ ٹیکس اہداف کو پورا کیا جاسکے جبکہ بیرونی سرمایہ کاری کیلئے دوست ممالک خاص کر چین، سعودی عرب اور یو اے ای بڑے پیمانے پر ملک میں سرمایہ کاری کرنے جارہے ہیںاور ساتھ ہی سیف ڈیپازٹ کو رول اوور کرانے کی بھی یقین دہانی کرائی ہے۔
ملک میں معاشی اصلاحات موجودہ حالات میں ناگزیر ہے، آئی ایم ایف کے کڑی شرائط بھی پورے کرنے ہیں، ٹیکس اہداف حاصل نہ ہونے پر منی بجٹ لائے جانے کا بھی امکان ہے۔
وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کا کہنا ہے کہ پاکستان کے اعتبار اور ساکھ کی کمی کا مسئلہ ہے، ہم عالمی مالیاتی فنڈ سے معاہدہ کرلیتے ہیں لیکن شرائط پر عمل نہیں کرتے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کا کام صرف پالیسی دینا ہے، کاروبار چلانا صرف نجی شعبے کا کام ہے، ملک عطیات سے نہیں چلتے ٹیکسوں پر چلتے ہیں اور ہر کسی کو ٹیکس دینا ہوگا۔
ایف بی آر کو مکمل طور پر ڈیجیٹلائز کیا جائے گا، کاروباری طبقے کو ذرا حوصلہ کرنا چاہیے، ہم ایف بی آر میں مکمل اصلاحات پر کام کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھاکہ ملک میں مہنگائی میں کمی کے لیے صوبوں کو اقدامات کرنا ہوں گے، ہم نے معاشی اصلاحات کو جاری رکھنا ہے، پاکستان کی آبادی 2.5 فیصد سے بڑھ رہی ہے اور آبادی کا بم پھٹ چکا ہے، غربت، سٹینڈرڈ برتھ ریٹ اور اسکولوں سے باہر بچوں کی تعداد میں اضافہ پر توجہ کی ضرورت ہے۔
وزیر خزانہ کا کہنا تھاکہ آئی ایم ایف مشن آئندہ ہفتے آرہا ہے، پاکستان کا ٹرسٹ اور کریڈیبیلٹی ڈیفیسٹ ہے، آئی ایم ایف اسٹاک ٹیکنگ کے لیے آرہا ہے، ہم معاہدہ کر لیتے ہیں پھر شرائط پر عملدرآمد نہیں کرتے ہیں اور آئندہ ہفتے آئی ایم ایف کو تمام حقائق بتا دیے جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ صوبوں سے قومی مالیاتی معاہدہ سے آمدن کو بڑھایا اور اخراجات کو کنٹرول کیا جائے گا، پاکستان کے ہاتھ باندھے گئے ہیں، سیف ڈیپازٹ کو بار بار رول اوور کروانا نہ آسان ہے نہ ہر کوئی کرتا ہے، ہمیں دوست ممالک سے سرمایہ کاری لانے کی ضرورت ہے۔
سی پیک فیز ٹو میں بزنس ٹو بزنس سرمایہ کاری ہونا ہے، ہماری کوشش ہے براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری برآمدی شعبے میں آئے۔
بہرحال اس وقت جو معاشی مسائل موجود ہیں ان پر وفاقی وزیر خزانہ نے واضح طور پر پالیسی بیان دیا ہے مگر کام حکومت نے ہی کرنا ہے، دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں قانون کی بالادستی ہے۔
وہاں اقرباء پروری، بڑے پیمانے پر مراعات، ٹیکس چھوٹ، سیاستدانوں سے لیکر قومی اداروں کے آفیسران کی تنخواہیں اور مراعات نہ ہونے کے برابر ہیں سب پر یکساں قانون لاگو ہے، سب ٹیکس دیتے ہیں کیونکہ نظام کے اندر کوئی رعایت اور مداخلت موجود نہیں ،وہاں شہریوں سمیت سرمایہ کاروں سے ٹیکس لے کر ان کو سہولیات بھی اسی طرح دی جاتی ہیں مگر ہمارے یہاں دوہرا معیار ہے جس سے سب واقف ہیں جب تک ریاستی سطح پر موثر معاشی پالیسی نہیں اپنائی جا تی اور اس کا اطلاق سب پر یکساں نہیں کیا جاتا، ملک معاشی مسائل سے نہیں نکلے گا۔
Leave a Reply