|

وقتِ اشاعت :   1 day پہلے

مشرق وسطیٰ میں اسرائیل نے جنگ کا دائرہ وسیع کردیا ہے، فلسطین کے بعد شام، لبنان اور ایران کو بھی نشانہ بنانا شروع کردیا ہے۔
اسرائیل نے غزہ میں اب تک ہزاروں کی تعداد میں فلسطینیوں کو شہید کیا ہے۔
اسرائیل جنگی جنون میں تمام تر عالمی جنگی قوانین اور انسانی حقوق کو پامال کرتے ہوئے نہتے شہریوں کو نشانہ بنارہا ہے اور روازنہ 50 کے قریب شہری شہید ہورہے ہیں، رہائشی عمارتوں، اسپتالوں، تعلیمی اداروں، امدادی اداروں، پناہی گزین کیمپوں کو اسرائیل نے ہدف بنارکھا ہے جبکہ امدادی ٹیموں پر بھی صہیونی فوج حملہ آور ہے ۔
غزہ میں انسانی بحران بدترین صورت اختیار کر چکا ہے۔
گزشتہ سال اکتوبر سے جاری غزہ جنگ میں اب تک 43 ہزار سے زائد فلسطینی شہری اسرائیلی حملوں میں شہید ہوچکے ہیں جن میں سے 70 فیصد خواتین اور بچے ہیں۔ گزشتہ روز فلسطین، لبنان اور ایران پر اسرائیلی حملوں کے خلاف سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں عرب اسلامی سربراہ اجلاس منعقد کیا گیا۔
اجلاس نے اسرائیل کی طرف سے غزہ کے شہریوں کو اجتماعی سزا دینے اور فلسطین میں نسل کشی کی مذمت کی جب کہ اسرائیل کی طرف سے غزہ میں بھوک اور فاقہ کشی کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی بھی مذمت کی گئی۔
اعلامیے میں قرار دیا گیا کہ عالمی برادری اسرائیل کے لیے ہتھیاروں کی برآمدروکے اور ترسیل پرپابندی لگائے، اقوام متحدہ میں اسرائیل کی رکنیت معطل کرنے کے لیے عالمی برادری کوآمادہ کیاجائے۔
اس سے پہلے اجلاس سے خطاب میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے کہاکہ سعودی عرب فلسطین ،لبنان اور ایران پر اسرائیلی حملوں کی مذمت اور خود مختار فلسطینی ریاست کی حمایت کرتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی برادری ایران کی سالمیت اور خود مختاری کے احترام کے لیے اسرائیل کو پابند کرے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے عرب اسلامی سربراہی اجلاس سے خطاب میں کہا کہ دنیا اسرائیلی جرائم سے صرف نظر کر رہی ہے، غزہ میں انسانی بحران تصور سے بڑھ کر ہے۔
شہباز شریف کا کہنا تھا کہ اسرائیل نے تمام حدیں پار کر کے عالمی انسانی تحفظ کے قانون کے چیتھڑے اڑا دیے ہیں۔
فوری طور فلسطینی ریاست قائم کی جائے، جس کا دارالحکومت القدس شریف ہو۔
وزیراعظم نے کہا کہ بھوک، افلاس اور قحط نے غزہ میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں، غزہ میں فوری جنگ بندی وقت کی ضرورت ہے۔
اس کے علاوہ وزیراعظم شہباز شریف نے اسرائیل کے ایران کے خلاف اقدامات پر تشویش کااظہار کیا اور ساتھ ہی لبنان پر حملوں کی بھی مذمت کی۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم سے امن کو خطرات لاحق ہیں، اسرائیل کے ایران کے خلاف اقدامات پر شدید تشویش ہے، عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے۔ بہرحال اسرائیل کو ہتھیاروں کی ترسیل اور مالی امداد اب تک امریکہ سمیت دیگریورپی ممالک کی جانب سے فراہم کی جارہی ہے جبکہ سفارتی سطح پر بھی اسرائیلی حملوں کا دفاع انہی ممالک کی جانب سے کی جارہی ہے ۔
عالمی برادری اسلامی ممالک میں انسانی حقوق کی پامالی پر فوری متحرک ہوکر سخت پابندیوں کے اطلاق اور سفارتی سطح پر تعلقات کو منقطع کرنے جیسے سخت اقدامات اٹھاتی ہے مگر اسرائیل کے وحشیانہ حملوں پر محض دکھاوے کے لیے ایک مذمتی بیان جاری کرکے اور غیر موثر مذاکرات کے دعوے کرتی ہے جبکہ عملی طور پر اسرائیل کی پشت پناہی کررہی ہے۔
اب اسلامی ممالک کی جانب سے مطالبات سے بڑھ کرعملی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے، تمام اسلامی ممالک کو ایک پیج پر آکر ایک سخت گیرموقف اپناتے ہوئے عالمی طاقتوں کے سامنے فلسطین کا مقدمہ لڑنا چاہئے جس سے عالمی طاقتوں پر اس کا معاشی، سفارتی اثر پڑ سکے تاکہ فلسطین سمیت پورے مشرق وسطیٰ میں جنگ کا خاتمہ ممکن ہوسکے اوراسرائیل سمیت چند قوتوں کی مشرق وسطیٰ پر کنٹرول کا خواب چکنا چور ہو جائے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *