|

وقتِ اشاعت :   November 12 – 2024

کوئٹہ:  وزیراعلی بلوچستان میرسرفراز بگٹی نے کہاہے کہ بلوچستان میں دوست دشمن کی پہچان ناممکن ہوتی جا رہی ہے

قوم پرستی کے نام پر دہشتگری(کا مطلب) ناراض بلوچ ہیں یہ تاثر درست نہیں کہ بلوچستان میں فوجی آپریشن کیے جا رہے ہیں

مجھے تو بلوچستان میں کہی ملٹری آپریشن نظر نہیں آرہا ہے بلوچستان میں500 کے قریب چینی شہریوں کی حفاظت کیلئے 3 ہزار اہلکار تعینات ہیں بلوچستان میں دہشت گردوں کو قتل عام کا لائسنس نہیں دیں سکتے ہیں

کوئٹہ ریلوے سٹیشن حملے کی تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے جلدسہولت کاروں کو گرفتار کر لیا جائے گا اگر مذاکرات سے مسائل حل نہیں ہورہے

تو طاقت استعمال کرنا پڑیگا ان خیالات کا اظہار انہوں نے غیر ملکی خبر ارساں ادارے سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے میرسرفراز بگٹی نے کہا ہے کہ کوئٹہ ریلوے سٹیشن حملے کی تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے

اور آئندہ چند روز میں تحقیقات مکمل کر کے خودکش حملہ آور کے سہولت کاروں، ان کے سہولت کاروں کو گرفتار کر لیا جائے گا صوبے میں بڑھتی دہشت گردی کا ذمہ دار بلوچستان لبریشن آرمی سے بات چیت نہیں کی جائے گی

صوبے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مشکل صورتحال کا سامنا ہے جس کی وجہ دشمن کا واضح نہ ہونا ہے انھوں نے کہا کہ یہ ایک خفیہ معلومات کی بنیاد پر لڑی جانے والی جنگ ہے اور کسی کو شک نہیں کہ( را (انڈین خفیہ ادارہ) اس کی فنڈنگ کر رہی ہے۔

بلوچستان کی اپنی کمیاں ہیں جس کی وجہ سے وہ ان کا مرکز بن گیا ہے۔

اب اس جنگ کو انٹیلی جنس سے ہی قابو کرنا ہے حکومت اب اس سلسلے میں موجودہ حکمتِ عملی پر نظرِ ثانی اور مستقبل کی حکمتِ عملی کے بارے میں کام کر رہی ہے۔

ہم واپس بلیک بورڈ کی جانب جا رہے ہیں تاکہ یہ طے کر سکیں کہ سٹریٹجی بنائیں اور دیکھیں کون سی سٹریٹجی کام نہیں کر رہی جو پے در پے واقعات ہو رہے ہیں

چند سال پہلے بلوچستان کے اس وقت کے کور کمانڈر لیفٹننٹ جنرل سرفراز علی نے بلوچ علیحدگی پسندوں کو واپس قومی دھارے میں لانے کی کوشش کی جو ان کے خیال میں غیر مناسب حکمتِ عملی تھی

جس کا صوبے کو اب نقصان ہو رہا ہے اب دیکھنا ہو گا کہ وہ کون سی غلطی ہے جو ہم نے ٹی ٹی پی کے لیے بھی کی کہ ہم نے انھیں چھوڑا اور واپس لائے اور یہی غلطی ہم نے بلوچ علیحدگی پسندوں کے ساتھ بھی کی کہ انھیں چھوڑ دیا اور اب دیکھیں وہ کیا کر رہے ہیں

بلوچستان میں جاری سکیورٹی فورسز کے آپریشنز اور بی ایل اے جیسی شدت پسند تنظیموں کے حملوں کا یہ سلسلہ ختم کرنے کے لیے مذاکرات کا راستہ اختیار کیوں نہیں کیا جاتا،

وزیراعلی نے کہا کہ جو لڑ رہے ہیں وہ یہ نہیں کہتے کہ ہماری کوئی شکایت ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ہم بلوچ شناخت (کی بنیاد) پر پاکستان کو توڑنا چاہتے ہیں۔ اور پورا پاکستان اس تذبذب میں ہے کہ یہ حقوق کی کوئی جنگ ہے یا مرکز کے ساتھ کوئی اختلاف ہے۔ ایسا کچھ نہیں ہے۔

نہ وہ لڑنے والا بلوچ اس دلیل پر یقین کرتا ہے اور نہ ہی اس میں کوئی سچائی ہے وزیر اعلی نے کہا ہے کہ اس تذبذب کے نتیجے میں اب پاکستانی قوم یہ سمجھتی ہے کہ مذہب کے نام پر دہشتگردی، دہشتگردی ہے۔

مگر قوم پرستی کے نام پر دہشتگری(کا مطلب) ناراض بلوچ ہیںبلوچستان کے وزیراعلی نے کہا کہ یہ تاثر درست نہیں کہ بلوچستان میں فوجی آپریشن کیے جا رہے ہیں۔

اس وقت بلوچستان کے کسی بھی علاقے میں فوجی آپریشن نہیں کیے جا رہے مجھے تو بلوچستان میں کہی ملٹری آپریشن نظر نہیں آرہا،۔ پیرا ملٹری فورسز جن میں ایف سی بلوچستان، لیویز ، سی ٹی ڈی اور پولیس شامل ہیں۔

خطرے کو دیکھتے ہوئے خفیہ معلومات کی بنیاد پر کارروائیاں ضرور کرتی ہیں لیکن اگر فوج استعمال ہوتی بھی ہے تو کیا ہے؟انھوں نے کہا کہ وہ خطرے کی بنیاد پر کوئی بھی فورس استعمال کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔

ہمیں اچھی انٹیلیجنس کی ضرورت ہے اور اس کے لیے ہم حکمتِ عملی بنا رہے ہیںلیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ بلوچستان میں کئی سالوں سے جاری یہ حکمتِ عملی حکومت اور سکیورٹی فورسز کے لیے کارگر ثابت نہیں ہو رہی بلوچستان میں بدامنی اور مسلح علیحدگی پسند تنظیموں کے حملوں میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ ان حملوں کی زد میں اب سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں اور چینی شہریوں کے علاوہ عام شہری بھی آنے لگے ہیں جبکہ ان حملوں کا دائرہ کار اب بلوچستان سے نکل کر پاکستان کے دیگر حصوں میں بھی پھیلتا نظر آتا ہے

سرفراز بگٹی نے کہا کہ وہ اس بیانیے سے متفق نہیں کہ فوج نے بلوچستان کے بارے میں سخت اور غیر لچکدار حکمتِ عملی اپنائی ہوئی ہے میں متفق نہیں کہ فوج نے یہاں ہارڈ لائن لی ہوئی ہے۔ اگر فوج نے اتنی ہارڈ لائن لی ہوتی جتنی خیبر پختونخواہ میں لی ہے

تو آج بلوچستان میں پرتشدد کاروائیاں نہ ہو رہی ہوتیں انہوں نے کہا کہ معصوم لوگوں کے قتل، لوگوں کو بسوں سے اتار کر مارنے، پنجابی آباد کاروں کو نشانہ بنانے اور ریلوے سٹیشنز اور سکولوں پر حملے جیسی پرتشدد کاروائیوں کی مذمت ہونی چاہیے وزیراعلی بلوچستان نے کہا کہ واقعاتی شواہد بھی موجود ہی اور ٹھوس ثبوت بھی ہیں۔ یوسف رضا گیلانی اور عمران خان بطور وزیراعظم بین الاقوامی پلیٹ فارمز پر ڈوزیئرز دے چکے ہیں۔ ہم جب یہ بات کہہ رہے ہیں

تو یہ محض الزام نہیں، ہم مکمل ذمہ داری کے ساتھ کہہ رہے ہیںسرفراز بگٹی کا یہ بھی کہنا تھا کہ بلوچستان میں500 کے قریب چینی شہریوں کی حفاظت کیلئے 3 ہزار اہلکار تعینات ہیں چینی شہریوں کے تحفظ کے معاملے میں چینی حکومت کی جانب سے کسی دبا کا علم نہیں تاہم بات چیت ہو گی تو وہ ہمارے حق میں ہو گی۔ اس کے لیے ہمیں ایک سیاسی اتفاقِ رائے کی ضرورت ہے جس کے لیے سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لینے کی کوشش کر رہے ہیں۔
وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے کہا ہے کہ آئینی بینچز کی تشکیل پاکستان پیپلزپارٹی اور اتحادی جماعتوں کا تاریخی اقدام ہے عوام کو درپیش مسائل کے حل کیلئے وکلاء متحرک کردار ادا کریں

اور دور افتادہ علاقوں میں عوام کی رہنمائی و معاونت کریں بلوچستان میں گڈ گورننس کے قیام کے لئے کوشاں ہیں، وکلاء معاشرے کا پڑھا لکھا باشعور طبقہ ہیں جن کی مدد سے حکومتی اقدامات پر عمل درآمد میں آسانیاں پیدا ہوسکتی ہیں ۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے منگل کو پیپلز لائرز فورم کے عہدیداران و اراکین بات چیت کرتے ہوئے کیا

ملاقات میں صوبائی وزراء میر صادق عمرانی، بخت محمد کاکڑ، حاجی علی مدد جتک، پارٹی رہنماء سید اقبال شاہ بھی موجود تھے ،وزیر اعلی بلوچستان نے وکلاء سے صوبے کی مجموعی سیاسی و سماجی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا اس موقع پر ریلوے اسٹیشن بم دھماکے کے شہداء کی مغفرت اور لواحقین کے صبر جمیل کے لئے دعا کی گئی جبکہ شرکاء نے صدر مملکت آصف علی زرداری کی جلد صحت یابی کیلئے بھی خصوصی دعا کی ، ملاقات میں باہمی مشاورت سے پیپلز لائرز فورم کی فعالیت اتحاد و اتفاق کے لئے خصوصی کمیٹی قائم کی گئی

جس کی سربراہی چیف منسٹر بلوچستان کریں گے اراکین میں صوبائی وزراء میر صادق عمرانی، حاجی علی مدد جتک، بخت محمد کاکڑ اور پارٹی کے سینئر رہنماء سید اقبال شاہ سمیت پیپلز لائرز فورم کے چار نمائندے شامل ہوں گے پی ایل ایف کے صوبائی صدر اس کمیٹی کے سیکرٹری ہوں گے ملاقات میں موجود پیپلز لائرز فورم کے عہدیداران و اراکین سے بات چیت کرتے ہوئے وزیر اعلی بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے کہا کہ دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے وکلاء سمیت معاشرے کے تمام طبقات کو اپنا کردار ادا کرنا ہے

دہشت گردی کے خلاف جنگ صرف فوج یا سیکورٹی فورسز کی نہیں بلکہ معاشرے کی ہر فرد کی جنگ ہے آئندہ کی نسلوں کے محفوظ مستقبل کے لئے دہشت گردی کا خاتمہ ضروری ہے میر سرفراز بگٹی نے کہا کہ دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے پرعزم ہیں اور مل جل کر دہشت گردی کی عفریت کا خاتمہ کریں گے وزیر اعلی نے کہا کہ صوبے کے دور دراز علاقوں میں وکلاء عوام کی رہنمائی و معاونت کریں تاکہ عوامی مشکلات و مصائب کا ازالہ کیا جاسکے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *