کوئٹہ : بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی اور پی ایس ایف کے رہنمائوں ناصر بلوچ، طاہر شاہ، فوزیہ بلوچ، زوہیب خان نے کہا ہے کہ حکومت گرفتار بلوچ اور پشتون ساتھیوں کو فوری طور پر رہا کرکے ان کے خلاف درج ایف آئی آر واپس لے اور بی ایم سی کے بند تمام ہاسٹلز کو کھولا جائے اور واقعہ میں ملوث ذمہ داروں اور پولیس آفیسران ، کالج انتظامیہ کے خلاف کارروائی کی جائے
اگر ہمارے مطالبات پر عملدرآمد نہ کیا گیا تو دیگر طلباء تنظیموں کے ساتھ ملکر سخت احتجاج کریں گے جس سے حالات کی تمام تر ذمہ داری حکومت اور متعلقہ حکام پر عائد ہوگی۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے بدھ کو کوئٹہ پریس کلب میں مشترکہ پریس کانفرنس اور اس سے قبل پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرے کے دوران خطاب کرتے ہوئے کیا مظاہرین نے پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے
جن پر نعرے درج تھے انہوں نے کہا کہ گزشتہ شب بولان میڈیکل کالج میں افسوسناک واقعہ پیش آیا پولیس نے تمام روایات کو پامال کرتے ہوئے ہاسٹل پر دھاوا بول کر ہاسٹل خالی کراکر طلباء پر تشدد کرکے انہیں گرفتار کیا
آنسو گیس کا استعمال کیا گیا انہوں نے کہا کہ بی ایم سی ، کالج میں طلباء کے درمیان ایک معمولی لڑائی ہوئی تھی جس کا پر امن حل کیلئے کوشاں تھے
کیونکہ اکثر طالب علموں کے درمیان چھوٹے مسائل پر لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں تو مل بیٹھ کر مسئلے کو حل کیا جاتا ہے لیکن پولیس نے انتظامیہ کے ساتھ ایک سوچی سمجھی سازش کے ذریعے اس مسئلے کو جواز بناکر ہاسٹل کو خالی کرایا اور طلباء نے مین گیٹ پر دھرنا دیکر احتجاج کیا تو ان پر آنسو گیس پھینکی اور لاٹھی چارج کیا اس سے طلباء زخمی اور بے ہوش ہوئے۔
دیگر کو تھانوں میں بند کیا گیا اس کے بعد بروری کے علاقے گولیمار چوک، عیسیٰ نگری، اے ون سٹی کے علاقوں میں طلباء کو ڈھونڈ کر تشدد کا نشانہ بناتے رہے انہوں نے کہا کہ یہ تمام اقدامات ایک سازش کے ذریعے ممکن بنائے گئے جس کا مقصد تعلیمی اداروں میں فورسز کی اجارہ داری کو واپس لانا ہے
اس طرح کے کام تعلیمی اداروں کو ملٹرائزیشن کرنے کے زمرے میں آتے ہیں انہوں نے کہا کہ ہم حکومتی نمائندوں اور انتظامیہ پر واضح کرنا چاہتے ہیں کہ جارہانہ پالیسی کو قبول نہیں کرسکتے
اس لئے رات تک تمام گرفتار بلوچ، پشتون ساتھیوں کو رہا کرکے ان کے خلاف درج ایف آئی آر واپس لیتے ہوئے بی ایم سی کے تمام ہاسٹلوں کو کھول کر فعال بنایا جائے اور واقعہ میں ملوث کالج انتظامیہ ، پولیس آفیسران اور دیگر ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی جائے اگر ہمارے مطالبات پر عملدرآمد نہ کیا گیا
تو بلوچستان بھر کی طلباء تنظیموں کے ساتھ ملکر احتجاج کریں گے جس سے حالات کی تمام تر ذمہ داری حکومت متعلقہ حکام پر عائد ہوگی۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم مسائل کو گفت و شنید سے حل کرانا چاہتے ہیں لیکن فورسز نے طاقت کا استعمال کرکے طلباء اور طالبات کو تشدد کا نشانہ بنایا جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔ ہم اپنا پر امن احتجاج جاری رکھیں گے۔
Leave a Reply