|

وقتِ اشاعت :   5 hours پہلے

پاکستان اس وقت ماحولیاتی آلودگی جیسے سنگین مسئلے سے دوچار ہے خاص کر بڑے شہر لاہور، اسلام آباد، کوئٹہ سمیت دیگراس مسئلے کا شکارہیں۔

فضائی آلودگی کے کئی اسباب ہیں۔

کوئلہ، لکڑی، تیل یا قدرتی گیس جلانے سے نکلنے والا دھواں، جنگلات میں آگ لگنا ، صنعتی شعبہ جات میں استعمال ہونے والے مختلف فوسل فیولز، اینٹوں کے بھٹّے، چمنیوں اور راکھ پیدا کرنے والی فیکٹریوں سے اْٹھتا دھواں، ردّی، ناکارہ اشیاء جلانے، پْرانی عمارتیں گرانے اور نئی تعمیرات کا عمل، ٹرانسپورٹ کے مختلف ذرائع شامل ہیں ۔

ان مسائل پر قابو پانے میں وفاقی ا ور صوبائی حکومتوں کی جانب سے سنجیدہ کوششیں نہ ہونے کی وجہ سے آج پاکستان ماحولیاتی آلودگی سے بہت زیادہ متاثر ہے جس سے مختلف بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ پنجاب کا سب سے بڑا شہر لاہور اسموگ کی لپیٹ میں ہے۔

گرین پاکستان کی بات تو کی جاتی ہے مگر المیہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں شجر کاری فوٹو سیشن تک محدود ہے، شجر کاری مہم چند روز چلائی جاتی ہے جس کے بعد پودوں کو توانا درخت بنانے کیلئے کوئی مستقل منصوبہ بندی نہیں کی جاتی بلکہ بڑے شہروں میں لگے درختوں کی کٹائی کی جاتی ہے جبکہ شہر کے نواحی علاقے جہاں زرخیز زمین ہے وہاں ہاؤسنگ اسکیم اور صنعتیں بنائی گئی ہیں جس کی وجہ سے ماحولیاتی آلودگی بڑھتی جارہی ہے۔

سپریم کورٹ کی جانب سے آئینی کیسز میں سب سے پہلے ماحولیاتی آلودگی کے کیس کی سماعت قابل ستائش ہے۔

سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے ماحولیاتی آلودگی سے متعلق اقدامات پر تمام صوبوں سے رپورٹ طلب کر لی۔

26 ویں آئینی ترمیم کے بعد پہلی بار سپریم کورٹ میں آئینی بینچ میںکیسز کی سماعت ہوئی۔

دوران سماعت جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دئیے کہ ماحولیات سے متعلق تمام معاملات کو دیکھیں گے جبکہ جسٹس مسرت ہلالی کا کہنا تھا ملک میں ہر جگہ ہائوسنگ سوسائٹیز بنائی جارہی ہیں، جسٹس نسیم حسن شاہ کو خط آیا تھا کہ اسلام آباد کوصنعتی زون بنایا جا رہا ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا ماحولیاتی آلودگی صرف اسلام آباد نہیں پورے ملک کا مسئلہ ہے، گاڑیوں کا دھواں ماحولیاتی آلودگی کی بڑی وجہ ہے، کیا دھویں کو روکنے کی کوشش کی جارہی ہے؟جسٹس نعیم اختر کا کہنا تھا ہاؤسنگ سوسائٹیز کے باعث کھیت کھلیان ختم ہو رہے ہیں، کاشتکاروں کو تحفظ فراہم کیا جائے، قدرت نے ہمیں زرخیز زمین دی ہے لیکن سب اسے ختم کرنے پر تلے ہوئے ہیں، آپ اپنی نسلوں کے لیے کیا کرکے جا رہے ہیں۔جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا پنجاب کی حالت دیکھیں سب کے سامنے ہے، اسلام آباد میں بھی چند روز قبل ایسے ہی حالات تھے۔
جسٹس محمدعلی مظہر کا کہنا تھا انوائرمنٹ پروٹیکشن اٹھارٹی اپنا کردار ادا کیوں نہیں کر رہی؟ 1993 سے معاملہ چل رہا ہے، اب اس معاملے کو ختم کرنا ہو گا۔

جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ پورے ملک کو ماحولیات کے سنجیدہ مسئلے کا سامنا ہے، پیٹرول میں کچھ ایسا ملایا جاتا ہے جو آلودگی کا سبب بنتا ہے۔

جسٹس مسرت ہلالی بولیں کہ مانسہرہ میں جگہ جگہ پولٹری فارم اور ماربل فیکٹریاں کام کر رہی ہیں، سوات میں چند ایسے خوبصورت مقامات ہیں جو آلودگی کا شکار ہو چکے ہیں۔

آئینی بینچ نے ماحولیاتی آلودگی سے متعلق اقدامات پر تمام صوبوں سے رپورٹ طلب کر لی اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل کی استدعا پر سماعت تین ہفتوں کے لیے ملتوی کردی۔ بہرحال ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے کیلئے سب نے اپنا حصہ ڈالنا ہے جبکہ حکومتی سطح پر موثر حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے جو اجلاسوں کے اعلامیہ اور بیانات تک محدود نہ ہو بلکہ ماحولیاتی آلودگی کی روک تھام کیلئے عملی اقدامات اٹھائے جائیں تاکہ اس خطرناک مسئلے سے چھٹکارا حاصل کیا جاسکے۔

اب سپریم کورٹ نے بھی اس معاملے کو اٹھایا ہے امید ہے کہ ماحولیاتی آلودگی پھیلانے والوں کے خلاف سخت فیصلہ آئے گا جبکہ عدالتی احکامات کے بھی مثبت اثرات مرتب ہونگے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *