کوئٹہ: بلوچستان کی سیاسی جماعتوں اور طلباء تنظیموں کے رہنمائوں عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر اصغر خان اچکزئی ،بلوچ ایکشن کمیٹی کے رہنماء اظہر بلوچ، بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنماء غلام نبی مری، نیشنل پارٹی کے رہنماء ڈاکٹر اسحاق بلوچ، بی وائی سی کی گلزادی سمیت دیگر نے کہا کہ ریاست طلباء کے جھگڑے کو ہوا دیکر بلوچ پشتون جھگڑا بنا رہی ہے اور پرامن طلبا کو ہاسٹلز سے نکال کر بے دخل کرکے جیل میں ڈال رہے ہیں۔ طلباء تنظیمیں جس بھی قسم کے احتجاج کا اعلان کریں گی ہم ان کے ساتھ ہوں گے۔
گرفتار طلباء کو رہا کرکے بند ہاسٹل کو نہ کھولا گیا تو آج بولان میڈیکل کالج کے سامنے احتجاج کیا جائے گا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے گزشتہ روز بولان میڈیکل کالج میں طلباء تنظیموں کے جھگڑے کو جواز بناتے ہوئے ہاسٹل سے طلباء و طالبات کو نکال کر انہیں بند کرنے کے خلاف اور گرفتار طلباء کی رہائی کیلئے نکالی گئی احتجاجی ریلی اور کوئٹہ پریس کلب کے سامنے منعقدہ مظاہرے کے شرکاء سے اظہار خیال کرتے ہوئے مظاہرین نے بینرز اور پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے جن پر نعرے درج تھے۔
مظاہرین سے مقررین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت اور انتظامیہ نے اب تو حد کر دی ہے کہ ہماری بچیوں کو رات کی تاریکی میں ہاسٹل خالی کر نے کے احکامات دیتے ہوئے اسے بند کیا گیا
جس کی ہم مذمت کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ ہم طلبا تنظیموں کے ساتھ ہیں وہ جو احتجاج کا لائحہ عمل اختیار کریں گے ہم ا ن کے ساتھ ہیں انہوں نے کہا کہ متعلقہ حکام ہمارے وسائل پر قابض ہو سمندر تمہارے ہاتھ میں ہیں
بد امنی کی لپیٹ میں تمہاری وجہ سے ہم سب ہیںٹرانسپورٹرز ہمارے تمہارے وجہ سے تکلیف میں ہیں ہماری جدی پشتی زمینوں پر تم قبضہ کر کرکے لاشیں ہمیں دے رہے ہوجس کی وجہ سے بلوچستان اور پشتون وطن میں رہنے والوں کے لئے جہنم بنا رکھاہے جس کی وجہ سے بلوچستان اس کی لپیٹ میں ہے اور اس کو پروان چڑھانے والے بھی آپ ہیں کیونکہ آپ نے 70کی دہائی سے قبضہ کیا ہوا ہے
یہ ہمارے باپ دادا کا وطن یہ ہماری سرزمین تم لوگوں نے جہنم بنا دی ہے بلوچ بارڈر ہو چاہے پشتون بارڈر ہو ہمارے تعلقات تم لوگوں نے خراب کئے ہیں اور سکھوں کے ساتھ تم بارڈر کھول رہے ہو اپنے لوگوں کے ساتھ غیروں جیسا سلوک بلوچ ،پشتون کے ساتھ دشمنی اور ہندو سکھ تمہارے دوست بن گئے نہ تمہاری معاشی حالت میں اتنی سکت ہے
نہ ہم اقوام تم پر اعتبار کرتے ہیں آپ کے بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں تو اعلانیہ جنگ شروع ہے اور تمام توجہ ایک نسل اور ایک صوبے پر مرکوز رکھ کر ہمارے وسائل کو بے دردی سے لوٹا جارہا ہے
اس کے علاوہ جبری گمشدگیوں کا سلسلہ بھی جاری ہے نوجوانوں کو گمشدہ کرکے تعلیمی اداروں سے بے دخل کیا جارہا ہے اب رہی سہی کسر طلباء کو ان کے ہاسٹل سے نکالا جارہا ہے اور پولیس دھمکیاں دے رہی ہے انہوں نے کہا کہ ریاست کی خام خیالی ہے کہ وہ ایسے ہتھکنڈوں سے بلوچستان پر قبضہ کرلیں گے ہم چھپ نہیں رہیں گے
اور نہ ہی تعلیمی اداروں سے دستبردار ہوں گے مقررین نے کہا کہ دن دیہاڑے بلوچستان یونیورسٹی سے 2 طلباء کو اٹھایا جاتا ہے اور پولیس وہاں نہیں پہنچتی جھگڑے کے دوران پولیس شیلنگ کرنے پہنچ جاتی ہے اس طرح کے ہتھکنڈے اب استعمال نہیں کرنے دیں گے اب نوجوانوں سے تعلیم حاصل کرنے کا حق چھین رہے ہیں ہم ہر محاذ پر مقابلہ کریں گے
کیونکہ طلباء ہمارا مستقبل ہے ہمارے وسائل کا استحصال پہلے ہی کیا جارہا تھا لیکن اب تو زندگیوں اور تعلیم کا استحصال کیا جارہا ہے اور ریاست اس طرح کے اوچھے ہتھکنڈوں سے بلوچ اور پشتون طلباء کے درمیان جنگ بنانا چاہتے ہیں۔
ہماری بچیوں اور خواتین پر تیزب پھینکا جاتا ہے بلوچستان یونیورسٹی میں ہراسمنٹ کا واقعہ ہو ااس سے لے دیگر علاقوں میں بلوچوں پر تعلیم کے دروازے بند کرنا معصوم بچوں کو ہراساں کرنا یہ سب ایک دوسرے کا تسلسل ہے ہمارے حکمرانوں کے پاس تو اختیار ہی نہیں ہے
اب بلوچستان ایک چھائونی بنا ہوا ہے اگر ہمارے گرفتار طلباء کو رہا نہ کیا گیا اور ہاسٹلز کو نہ کھولا گیا تو آج بولان میڈیکل کالج کے سامنے احتجاج کریں گے۔
Leave a Reply