کوئٹہ: اصغر علی ترین کی صدارت میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی)بلوچستان کا اجلاس منعقد ہوا۔اجلاس میں ڈپٹی کمشنرز کے اکائونٹس میں آڈٹ رپورٹ کے مطابق موجود 19 ارب روپے کے آڈٹ پیرا پر غور خوض کیا گیا۔
اجلاس میں دس ڈپٹی کمشنرز کو شرکت کرنی تھی لیکن صرف ڈپٹی کمشنر قلعہ سیف اللہ اور ڈپٹی کمشنر کوئٹہ نے اجلاس میں شرکت کی۔
اجلاس میں انکشاف کیا گیا کہ 19 ارب روپے 2008 سے مختلف ڈپٹی کمشنرز کے اکاونٹس میں پڑے رہے ہیں جو کہ سڑک کٹنگ ، اراضیات کے کمپنسیشن اور دیگر تعمیری و ترقیاتی مقاصد کے لئے متعین تھے۔
ڈی سی کوئٹہ کی غیر تسلی بخش تیاری کی وجہ سے چیئر مین پبلک اکاونس کمیٹی اصغر علی ترین نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایجنڈے سے ہٹ کر کفتگو کررہے ہیں
انہوں نے کہا کہ مجھے وقت دیا جائے تاکہ متعلقہ پیرا پر تیاری کیا جاسکے اور اس بابت کمیٹی کو رپورٹ پیش کر سکے۔
اس موقع پر بورڈ آف ریونیو کے نمائندے نے اطلاع دی کہ ڈی سی پنجگور نے ان پیسوں کی بابت محکمہ کو تفصیلات فراہم کی ہے جبکہ ان پیسوں کے بارے میں دیگر ڈپٹی کمشنروں کی جانب سے کوئی ریکارڈ جمع نہیں کروائی گئی ہے۔
ڈپٹی کمشنر قلعہ سیف اللہ نے انکشاف کیا کہ اب تک 2.8 ارب روپے متعلقہ لوگوں میں تقسیم کر دیئے گئے ہے ۔
اور اب ان کے اکاونٹس میں 1.2 ارب روپے مزید موجود ہیں۔
کمیٹی کی جانب سے عدم تیاری اور دیگر ڈپٹی کمشنروں کی غیر موجودگی پر تشویش کا اظہار کیاگیا۔
جس بابت پبلک اکا ئونٹس کیمٹی کی میٹنگ طلب کی گئی تھی اس کی تصیلات سے آگاہی فراہم نہ ہوسکی اس ضمن میں چیئرمین اصغر علی ترین نے محکمہ خزانہ کو ہدایت کی کہ وہ اسٹیٹ بینک سے تمام ڈپٹی کمشنروں کے اکاونٹس کی تفصیلات حاصل کرے اور پی اے سی کو رپورٹ پیش کریں
کہ ایک ڈی سی کے کتنے اکاونٹس ہے اور انکی مکمل تفصیل فراہم کی جائے کمیٹی نے مختلف اکاونٹس میں پڑے رقوم سرکاری خزانے میں جمع کرنے کی اہمیت پر زور دیا کہ یہ پیسے بجائے ڈی سیز کے اکاونٹس کے، قومی خزانے میں رکھا جانا چاہئیے اور اس پر جلد از جلد عمل درآمد ہونا چاہیئے۔
ڈپٹی کمشنر کوئٹہ نے اپنے اکاؤنٹس میں 1.5 ارب روپے موجود ہونے کی تصدیق کی۔
جبکہ ڈپٹی کمشنر قلعہ سیف اللہ نے تین اکاؤنٹس کا ذکر کیا ،
جن میں سے دو اکاونٹس ڈسٹرکٹ کوآرڈینیشن آفیسر کے وقت سے غیر فعال ہے اور ان میں بھی کافی رقم پڑے ہیں۔انھوں نے مزید کہا کہ دو غیر فعال اکاونٹس میں رکھے پیسوں کے بارے میں محکمہ خزانہ کو لکھا گیا ہے لیکن اب تک ڈی سی قلعہ سیف اللہ کو جواب نہیں ملی ہے۔
اس دوران ذابد علی ریکی نے زور دے کر کہا کہ 19 ارب روپے ایک بڑی رقم ہے ، اور کسی بھی طرح کی کمزور ی اس حوالے سے برداشت نہیں کیا جائے گا۔رحمت صالح بلوچ، فضل قادر مندوخیل و دیگر اراکین نے نوٹ کیا کہ اجلاس میں صرف دو ڈپٹی کمشنروں نے شرکت کی ، اور کہا گیا کہ غیر حاضر افراد سے وضاحت طلب کی جائے گی۔ کمیٹی نے اس بات کو یقینی بنانے کا عزم کا اظہار کیا کہ عوامی رقم کا حساب رکھا جائے اور اس کی وصولی کی جائے۔ کمیٹی نے محکمہ بورڈ آف ریونیو ، محکمہ خزانہ اور متعلقہ ڈپٹی کمیشنرز کو ایک اور موقع فراہم کیا اور 2 دسمبر 2024 کو اس بابت دوبارہ میٹنگ کو ری شیڈول کیا گیا ، جس میں تمام ڈپٹی کمشنروں کو متعلقہ پیرا پر اچھی طرح تیاری کی ہدایت کی گئی اور غیر حاضر ہونے کی صورت میں کاروائی کرنے کا عندیہ دیا گیا۔
چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ گزشتہ دو دن کے اجلاس میں محکمہ آبپاشی اور مالیات کے مختلف پیراز پر ریکوری کا فیصلہ کیا گیا جس کے مطابق 50 کروڑ روپے کی ایک خطیر رقم وصول کر کے قومی خزانے میں جمع کروائی گئی ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ اب ہم نہ صرف محکموں سے پوچھ گچھ کرینگے بلکہ احتساب کر کے قومی خزانے میں عوام کے پیسے بھی جمع کروائنگے۔
اجلاس میں زابد علی ریکی ، زمرک خان اچکزئی ، رحمت صالح بلوچ، فضل قادر مندوخیل ، وزیر خزانہ میر شعیب نوشیروانی کے علاوہ سیکرٹری اسمبلی طاہر شا کاکڑ، ڈی جی آڈٹ بلوچستان شجاع علی، ممبر بورڈ آف ریونیو نصراللہ جان، ایڈیشنل سیکرٹری پی اے سی سراج لہڑی، چیف اکائونٹس آفیسر پی اے سی سید محمد ادریس، ایڈیشنل سیکرٹری خزانہ ڈپٹی کمشنر قلعہ سیف اللہ سعید احمد دمڑ اور ڈپٹی کمیشنر کوئٹہ سعد بن اسد نے شرکت کی.
Leave a Reply