|

وقتِ اشاعت :   3 hours پہلے

ملک میں ٹیکس وصولی کا مسئلہ سب سے اہم ہے جس پر آئی ایم ایف کی جانب سے بار بار ٹیکس کے اہداف پورے کرنے ،اخراجات میں کمی، شعبوں کی نجکاری پرزور دیا جارہا ہے۔
پاکستان کی جانب سے معاشی بہتری کیلئے اقدامات اٹھائے جارہے ہیں مگر نجکاری اور ٹیکس محصولات بڑے چیلنج بن چکے ہیں، ان اہداف کو پورا کرنے کیلئے حکومتی سطح پر کوششیں تیز کی گئی ہیں ،تاجر دوست اسکیم پر بھی بات چیت چل رہی ہے مگر خاص پیش رفت نہیں ہوئی ہے جبکہ اداروں کی نجکاری خاص کر پی آئی اے کیلئے لگنے والی اب تک کی بولی سے بھی حکومت مطمئن نہیں۔
وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کا کہنا ہے کہ پاکستان نے پرائمری سرپلس کا ہدف کامیابی سے پورا کیا ہے، نیشنل فسکل پیکٹ کو کابینہ نے منظور کیا ہے، اب این ایف سی پر نظر ثانی کی ضرورت نہیں۔
کوئی منی بجٹ نہیں آرہا ، 12970 ارب روپے کی ٹیکس وصولی کا ہدف پورا کیا جائیگا اور ٹیکس وصولیوں کو انفورسمنٹ اور انتظامی اقدامات سے بہتر کیا جائے گا۔
وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کے مطابق فسکل پیکٹ کی منظوری کیلئے وزیر اعلیٰ سندھ کا خصوصی طور پر مشکور ہوں، جب بھی قومی مفاد کا معاملہ ہوا تو کے پی کو سب سے آگے پایا۔
آئی ایم ایف کے دورے کا مقصد معیشت کا جائزہ لینا نہیں بلکہ اعتماد سازی میں اضافہ تھا، آئی ایم ایف سے مذاکرات تعمیری اور با مقصد رہے، آئی ایم ایف سے ور چوئل مذاکرات ہوتے رہتے ہیں،کچھ نکات پر آمنے سامنے بیٹھ کربات چیت ضروری تھی لہٰذا حقائق کی بنیاد پر کھل کر بات چیت کی۔
آئی ایم ایف وفد نے پاکستان کی بات غور سے سنی اور اس سے مطمئن نظر آئے۔
حکومت کے محکموں میں رائٹ سائزنگ کا کام جاری ہے، 11 محکموں میں رائٹ سائزنگ کا کام مکمل ہو گیا ہے، 5 محکموں میں جاری ہے، آئی ایم ایف وفد سے توانائی کے شعبے میں اصلاحات پر زیادہ بات چیت ہوئی، جینکو ، ڈسکوز اور ائیر پورٹ نجی شعبے کو دیں گے۔
دوسری جانب آئی ایم ایف نے پاکستان کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کا اعلامیہ جاری کر دیا۔
آئی ایم ایف کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان سے 12 تا 15 نومبر تک مشن چیف نیتھن پورٹر کی سربراہی میں مذاکرات ہوئے، مذاکرات میں وفاقی حکومت کے علاوہ صوبائی حکومتوں سے بھی بات چیت ہوئی۔
مذاکرات میں نجی شعبہ کے نمائندوں سے بھی تبادلہ خیال ہوا۔
آئی ایم ایف کے اعلامیے میں بتایا گیا ہے کہ معاشی امور پر پاکستانی حکام کے ساتھ بات چیت مثبت رہی۔
بہرحال آئی ایم ایف اپنے شرائط کو عملی طور پورا ہوتا ہوادیکھنا چاہتا ہے جبکہ حکومت بھی آئی ایم ایف کے ساتھ مثبت طریقے سے آگے بڑھ رہی ہے۔
منی بجٹ کا نہ آنا یہ ایک اچھا اقدام ہے مگر ٹیکس کے دائرے کو وسیع کرنا ضروری ہے تاکہ ٹیکس وصولی کے اہداف پورے ہوسکیں۔
بڑی کمپنیاں اور تاجر سرمایہ لگاکر بڑے پیمانے پر منافع کمارہے ہیں مگر ٹیکس ادا نہیں کررہے جنہیں ٹیکس نیٹ میں لانا ضروری ہے تاکہ تنخواہ دار طبقے پر بوجھ نہ پڑے اور نہ ہی اشیاء کی قیمتوں پر مزید ٹیکسز لگاکر عوام کو زندہ درگور کیا جائے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *