کوئٹہ: ارکان اسمبلی کیساتھ پالیسی ڈائیلاگ ،موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کیلئے رویوں میں تبدیلی کی ضرورت ہے ،ارکان بلوچستان اسمبلی پاکستان کو ترقی پذیر ملک کی وجہ سے موسمیاتی تبدیلی کے چیلنجز کا زیادہ سامنا ہے، ڈپٹی اسپیکر بلوچستان اسمبلی غزالہ گولہ نے کہا کہ سال 2022 کی سیلاب سے متعلق سروے سے مطمئن نہیں ہوں، لوگوں کی مشکلات سے آگاہ ہیں۔
پارلیمانی سیکرٹری عبدالمجید بادینی نے کہا کہ لوگ ہم سے سوال کررہے ہیں کہ آپ ہمارے نمائندے ہیں، سیلاب کے متاثرین ہم ہیں لیکن امداد و ریلیف منظور نظر افراد کو مل رہا ہے۔
رکن صوبائی اسمبلی مولوی نور اللہ نصیر نے کہا کہ آباد میں سیلاب سے اقلیتی برادری خاص کر شیڈولڈ کاسٹ کے لوگ متاثر ہوئے ہیں۔
پارلیمانی سیکرٹری سنجے کمار نے کہا کہ مکران زون امدادی ریلیف سے محروم ہیں، کوئی قدرتی آفت آتی ہے تو اکثر علاقے توجہ حاصل نہیں کر پاتے۔
پارلیمانی سیکرٹری برکت علی رند نے کہا کہ بلوچستان پاکستان کا صوبہ ہے جس کا اپنا ایک نظام ہے، ہمیں اپنے سسٹم میں رہ کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
چیئر مین پبلک اکائونٹس کمیٹی بلوچستان اصغر علی ترین نے کہا کہ کوئٹہ اسلامک ریلیف بلوچستان کے زیر اہتمام بلوچستان اسمبلی میں ارکان اسمبلی کے ساتھ “پالیسی ڈائیلاگ اور موسمیاتی تبدیلی” کے عنوان سے ایک روزہ پروگرام کا انعقاد کیا گیا۔
اس میں ڈپٹی اسپیکر بلوچستان اسمبلی غزالہ گولہ، پارلیمانی سیکرٹریز عبدالمجید بادینی، سنجے کمار، برکت علی رند، اراکین صوبائی اسمبلی مولوی نور اللہ، میر زابد علی ریکی، اصغر علی ترین، خیر جان بلوچ، شاہدہ رئوف دنیا موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں ہونے والی تبدیلیوں کے بعد موافقت اور تخفیف کی طرف جا رہے ہیں۔
بدقسمتی سے بلوچستان موافقت اور تخفیف کی پالیسی میں بہت پیچھے ہیں، دنیا جدیدیت کی طرف جا رہی ہے اور بدقسمتی سے ہم آج بھی روایتی زرعی طریقے اپنا رہے ہیں۔
محکموں کے درمیان روابط کی کمی ہے، موسمیاتی تبدیلی کو مد نظر رکھتے ہوئے محکمہ ماحولیات، زراعت و دیگر کے درمیان روابط اشد ضروری ہے۔
پنجاب و دیگر علاقوں میں لوگوں کو سانس لینے میں مشکلات کا سامنا ہے اور کوئٹہ کا ائیر کوالٹی بہترین ہے۔ اگر ہم کرش پلانٹس و دیگر ماحول دشمن اقدامات نہیں کرتے رہے تو ہمیں بھی مستقبل میں مشکلات کا سامنا پڑ سکتا ہے۔
چلتن نیشنل پارک، ہنگول اور زیارت پارک جس کو نیشنل پارک ڈکلیئر کیا گیا ہے، اسی طرح تکتو کو اگر نیشنل پارک ڈکلیئر کیا جائے بلکہ زیارت میں جونیفر کے جنگلات کا تحفظ وقت کی اہم ضرورت ہے۔
کوئٹہ میں زیر زمین پانی کی سطح دن بدن نیچے گر رہی ہے، ان تمام تر وجوہات کی وجہ سے آئندہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے ہمیں سخت مشکلات کا سامنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ MHVRA بلوچستان کے 13 اضلاع میں مکمل ہو چکا ہے، البتہ اسلامیک ریلیف کوہٹہ میں جلد اس کو مکمل کر لے گا اور اس پر کام جاری ہے۔
انوار عادل نے کہا کہ اسلامک ریلیف قدرتی آفت کے بعد ایمرجنسی نافذ ہونے پر 72 گھنٹوں میں امدادی کاموں کا آغاز کرتی ہے اور کسی بھی علاقے میں قدرتی آفت کے بعد آفت زدہ قرار دینے کا اختیار پی ڈی ایم اے کے پاس ہے۔
ڈپٹی اسپیکر بلوچستان اسمبلی غزالہ گولہ نے کہا کہ لوگوں کے بنائے رکاوٹوں سے مشکلات بڑھ جاتی ہے، جن مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہے ہمیں ان کی وجوہات جاننے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کو ترقی پذیر ملک کی وجہ سے موسمیاتی تبدیلی کے چیلنجز کا زیادہ سامنا ہے، موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کیلئے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔
شجرکاری، گرین ٹیکنالوجی، درختوں کی کٹائی کی روک تھام، ماحولیاتی آلودگی کا سبب بننے والے عوامل کے خاتمے سے ہی ہم موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات سے بچ سکتے ہیں۔
پارلیمانی سیکرٹری عبدالمجید بادینی نے کہا کہ سال 2022 کی سیلاب سے متعلق سروے سے مطمئن نہیں ہوں، لوگوں کی مشکلات سے آگاہ ہوں، اسلامک ریلیف عوام کی مشکلات کے حل کیلئے موثر کردار ادا کررہی ہے۔
میری خواہش ہے کہ اسلامک ریلیف جہاں مکانات کی تعمیر کررہی ہے انہیں سولر لگا کر دیں تاکہ انہیں بجلی کی سہولت حاصل ہو۔ بلوچستان میں جو تباہ کاریاں ہو رہی ہیں اس کے ذمہ دار ہم سب ہیں۔
رکن صوبائی اسمبلی مولوی نور اللہ نے کہا کہ لوگ ہم سے سوال کررہے ہیں کہ آپ ہمارے نمائندے ہیں، سیلاب کے متاثرین ہم ہیں لیکن امداد و ریلیف منظور نظر افراد کو مل رہا ہے، یہ صورتحال قابل تشویش ہے۔
پارلیمانی سیکرٹری سنجے کمار نے کہا کہ نصیر آباد میں سیلاب سے اقلیتی برادری خاص کر شیڈولڈ کاسٹ کے لوگ متاثر ہوئے ہیں، اسلامک ریلیف اگر وہاں کام کررہی ہے تو ان کے مسائل کو بھی خاطر میں لائیں۔
پارلیمانی سیکرٹری برکت علی رند نے کہا کہ مکران زون امدادی ریلیف سے محروم ہیں، مکران میں جب کوئی قدرتی آفت آتی ہے تو یہ علاقے اکثر توجہ حاصل نہیں کر پاتے، غیر سرکاری تنظیموں سے گزارش ہے کہ وہ اس طرف توجہ دیں۔
شاہدہ رئوف نے کہا کہ اسلامک ریلیف نے ایک اہم مسئلے پر پروگرام کا انعقاد کیا ہے، تمام غیر سرکاری تنظیموں کو امدادی کاموں کیلئے ویلکم کہتے ہیں، غیر سرکاری تنظیمیں قدرتی آفات اور مشکل وقت میں حکومت وقت کی مدد کررہی ہے۔
اگر کوئی ریلیف عوام کو نہیں ملتا تو حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ یقینی بنائیں کہ حق دار کو حق ملے۔
انہوں نے کہا کہ کئی سالوں سے سیلاب آرہے ہیں لیکن اس حوالے سے اب تک وجوہات کا تعین نہیں کرسکے اور نہ ہی ہم ان کی روک تھام کو یقینی بنا سکے ہیں، ہمیں مل کر ان وجوہات کو جاننے کی ضرورت ہے جن کے نتیجے میں نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
محل وقوع کے اعتبار سے ہر علاقے کا اپنا جغرافیہ ہے، حقیقت پسند بن کر ہمیں کام کرنے کی ضرورت ہے۔
چیئر مین پبلک اکائونٹس کمیٹی بلوچستان اصغر علی ترین نے کہا کہ بلوچستان پاکستان کا صوبہ ہے جس کا اپنا ایک نظام ہے، ہمیں اپنے سسٹم میں رہ کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
سیلاب سے بچائو، پینے کے پانی و دیگر کیلئے اربوں روپے رکھے جاتے ہیں، بدقسمتی سے جب بارشوں میں کمی ہوئی تو ہم نے سیلابی پانی کے راستے میں آنے والے علاقوں پر قبضہ کرلیا، ندی نالوں پر اب بھی لوگوں کے گھر بنے ہیں۔
یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ پانی ایک بار جہاں سے گزر جائیں، 100 سال بعد بھی وہ اپنا راستہ بنائے گا، ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے۔
محکموں کو اربوں روپے ترقیاتی منصوبوں کیلئے ملتے ہیں لیکن اثرات نظر نہیں آرہے
Leave a Reply