|

وقتِ اشاعت :   5 hours پہلے

کوئٹہ: بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کا تیسرا مرکزی کمیٹی کا تین روزہ اجلاس شال میں منعقد ہوا۔اجلاس کی صدارت چیئرمین بالاچ قادر نے کی جبکہ سیکرٹری جنرل صمندبلوچ نے اجلاس کی کارروائی چلائی۔

اجلاس کا باقائدہ اغاز شہدائے بلوچستان کی یاد میں دومنٹ کی خاموشی سے کی گئی جبکہ اجلاس میں چیئرمین بی ایس او کا افتتاحی خطاب،موجودہ بین القوامی سیاسی صورتحال،تنقیدی نشست، بلوچستان میں تعلیمی پسماندگی،تنظیمی امور و آئندہ لائحہ عمل کے ایجنڈے زیر بحث رہے۔

اجلاس کے شروع میں مختلف زونز کی سیکریٹری رپورٹس اور مرکزی رہنماؤں کے دورہ رپورٹس پیش کئے گئے اور ان پر سیرحاصل گفتگو کی گئی۔اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین بی ایس او بالاچ قادر نے کہا کہ موجودہ صورتحال میں جہاں عالمی و علاقائی کشمکش جاری ہیں تو وہیں دوسری جانب مظلوم اقوام کے خلاف استعماری صف بندیاں کی جارہی ہیں۔

آج کی جدید دنیا میں انسانی حقوق کے عالمی چیمپئنز کی چابی طاقت ور استعماری طاقتوں کے ہاتھ میں ہیں۔

بین القوامی انسانی حقوق کے قوانین و قوموں کی بنیادی سیاسی و معاشی بالادستی یرغمال ہیں۔ محکوم اقوام کی خودمختاری کو سلب کرنے کیلئے عالمی استعماری سامراج اور ان کے علاقائی لے پالک مختلف صف بندیوں میں مصروف عمل ہیں۔

دنیا بڑتی ہوئی معاشی کشمکش کے تناظر میں مظلوم اقوام مزید جبر و استحصال کا شکار ہیں جنکی قومی وسائل کو لوٹنے اور بالادستی کو سلب کرنے کیلئے جاری مظالم شدت اختیار کرچکے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ مظلوم اقوام کی قومی شناخت اور اپنی زمین پر اختیار ایک حقیقت ہے جس کو تسلیم کیے بغیر بین القوامی سطح پر امن و امان ناممکن ہے۔

چیئرمین بی ایس او نے تنظیمی پروگراموں پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے اسے عظیم فکری ساتھیوں کی کمٹمنٹ کا نتیجہ قرار دیا۔

انھوں نے کہا کہ تنظیم ایک واضح سیاسی پروگرام کے تحت بلوچ نوجوانوں کی رہنمائی کررہی ہے۔

بلوچستان بھر میں شروع کئے جانے والے مختلف سیاسی و تعلیمی تحریکوں، علم ئنا چراغ کتب میلہ اور جلسوں کے باعث تنظیم بلوچ قوم کے امیدوں کا مرکزی بن چکی ہے۔

“علم ئنا چراغ” کتب میلہ آج بلوچستان کے کونے کونے میں کتب پہنچانے اور کتب بینی کے رواج کو عام کرنے کا ذریعہ بن چکی ہے۔ طلباء سیاست میں گزشتہ ایک دہائی سے زائد عرصے کے جمود کو توڑتے ہوئے تنظیم نے شال میں راہشون بلوچ سردار عطاء اللہ مینگل کے برسی کے مناسبت سے عظیم الشان جلسہ منعقد کرواکر نہ صرف سردار عطاء اللہ مینگل کو خراج عقیدت پیش کیا بلکہ بی ایس او کے روایات کو بھی زندہ کیا۔ جلسے کی تیاریوں کے سلسلے میں بلوچستان بھر اور بالخصوص شال کے گلی گلی میں کیمپین چلایا گیا، کارنر میٹنگز ہوئے ریلیاں نکالی گئی۔

اس پورے کیمپئن کو بلوچ عوام کی زبردست کمک اور ہمدردیاں حاصل رہی۔

اور اسی بدولت آج تنظیم کے ادارے نہ صرف تعلیمی اداروں بلکہ بلوچستان بھرمیں ہرمیں متحرک ہیں اور بلوچ نوجوانوں کی سیاسی تربیت کا عمل جاری رکھے ہوئے ہیں۔انھوں نے کہا کہ عصر حاضر کے معروضی حالات کا ادراک کرتے ہوئے بلوچ نوجوان اپنی علمی و صلاحتیوں کو بروئے کار لاکر اجتماعی قومی بہتری کیلئے بھرپور کردار عطا کریں۔

اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ طالب علم کسی بھی قوم کے عروج و زوال میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اور ایسے معاشرے جہاں طلباء سیاسی جمود کا شکار ہو تنزلی ان کا مقدر بن جاتی ہے۔

مرکزی چیئرمین نے بلوچستان کے موجودہ تعلیمی زبوں حالی کو زیرِ بحث لاتے ہوئے کہا کہ آج بلوچستان کا تعلیمی صورتحال انتہائی ابتری کا شکار ہے اور ایک منظم منصوبے کے تحت بلوچستان کے تعلیمی سرگرمیوں کو متاثر کرنے کی کوشش کیا جارہا ہے۔

مختلف نفسیاتی ہتھکنڈوں کو اپناتے ہوئے تعلیمی اداروں میں علمی سرگرمیوں کو منجمند کیا جارہا ہے۔ جس کی تازہ مثال بولان میڈیکل کالج اور ہاسٹل کر بد ترین کریک ڈاؤن اور طلباء و طالبات پر وحشیانہ تشدد ہے۔

گزشتہ دنوں بولان میڈیکل کالج میں رونما ہونے والے معمولی سے واقعے کو جس طرح جواز بنا کر ہاسٹل پر کریک ڈاؤن کر کے ڈیڑھ سو سے زائد بے گناہ طلبا کو گرفتار کرکے ہاسٹل و کالج بند کیا گیا جو کہ نام نہاد بلوچستان حکومت کے تعلیم دشمنی کو واضح کرتا ہے۔تنقیدی نشست کے ایجنڈے میں مرکزی زمہ داران نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سیاسی سرگرمیوں کی بہتری کیلیے تنظیم کے اندر تنقیدی عمل کو جاری رکھنا نہایت ہی اہمیت کا حامل ہے۔ ایک سیاسی کارکن کو ہمیشہ خود تنقیدی کے عمل سے گزارنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنی سیاسی سفر میں خود کو ہر طرح کی غیر سیاسی سرگرمیوں سے دور رکھ سکیں۔ سیاسی سرگرمیاں اس وقت منظم ہو سکتی ہے جب ان کے ساتھ علم شامل ہو لیکن ایک سیاسی کارکن کے عمل میں اس وقت تک سنجیدگی اور پختگی نہیں آتی جب تک وہ خود کو مسلسل خود تنقیدی نگاہ سے نہیں دیکھے گا۔ اس لیے تنظیم کے تمام کارکنان اورکیڈرز اپنے سیاسی عمل میں خودتنقیدی سوچ کو پروان چڑھائیں تاکہ سیاسی عمل جو کہ کسی مقصد کیلیے کی جاری ہے اس میں مزید پختگی آئے۔اجلاس میں سینٹرل کمیٹی اراکین نے بلوچستان میں فوجی آپریشن کے فیصلے کو بلوچ نسل کا تسلسل قرار دیتے ہوئے کہا کہ گزشتہ سات دہائیوں سے بلوچستان پر جارحیت جاری ہے۔ پالیسی ساز بلوچ مسئلے کو بزور شمشیر حل کرنے کی کوشش کررہے ہیں کو ہمیشہ ناکام رہا ہے۔بلوچستان سمیت دیگر تعلیمی اداروں میں حالیہ بلوچ طلباء کی جبری گمشدگی ایک واضح پیغام ہے کہ حکمران بلوچ قوم کی سیاسی آواز کو طاقت کے زور پر کچلنا چاہتے ہیں۔ بی ایس او کے مرکزی ذمہ داران سمیت سینکڑوں بلوچ سیاسی کارکنان کو انسداد دہشت گردی کے لسٹ میں شامل کرنا بنیادی آئینی انسانی حقوق کی واضح خلاف ورزی ہے۔

اس طرح کے جابرانہ رویے مذید نفرتوں کا موجب بنیں گے۔

سینٹرل کمیٹی اراکین نے بلوچستان کے سرحدی علاقوں میں کاروبار کی بندش کو معاشی قتل عام قرار دیتے ہوئے کہا کہ حکمران ذریعہ معاش پر حملہ ہوکر بلوچوں کو نان شبینہ کا محتاج بنا رہے۔

رخشان،مکْران،سمیت دیگر سرحدی علاقوں میں باعزت کاروبار کو ممنوعہ قرار دیکر روزانہ کی بنیاد پر مزدوروں کو تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ایک طرف وسائل پر یلغار جبکہ دوسری جانب قانونی کاروبار پر پابندی لگادی گئی ہے۔

سینٹرل کمیٹی اراکین اراکین نے آئندہ لائحہ عمل کے ایجنڈے پر مختلف پروگراموں کی توثیق جبکہ نئے تنظیمی پروگراموں کی منظوری دے دی۔ اجلاس نے مادری زبانوں کی ترقی و ترویج اور تعلیمی اداروں میں رائج کرنے کیلئے تحریک چلانے کی منظوری دے دی جس کے تحت سیمنارز،کانفرنس اور تقریبات منعقد کیے جائیں گے۔

اجلاس نے تعلیمی اداروں میں فیسوں کی اضافے کے خلاف تحریک چلانے کی بھی منظوری دے دی جبکہ تنظیمی کارکنان کی صلاحتیوں کو اجاگر کرنے اور سوشل میڈیا ٹیم کو جدید محارتوں سے آشنا کرنے کیلئے سوشل میڈیا ورکشاپ انعقاد کرنے کا فیصلہ کیا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *