کوئٹہ : وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیئرمین نصر اللہ بلوچ نے کہا ہے کہ آواران کے رہائشی دلجان کی جبری گمشدگی کے خلاف خواتین اور بچوں کا احتجاجی دھرنا پانچویں روز بھی جاری ہے
اس سردی کے موسم میں خواتین اور بچے دن رات احتجاجی دھرنے پر بیٹھے ہوئے ہیں انکا مطالبہ ہے کہ دلجان پر کوئی الزام ہے تو انہیں منظر عام پر لاکر عدالت میں پیش کرکے صفائی کا موقع فراہم کیا جائے
اگر بے قصور ہے تو فوری طور پر رہا کرکے خاندان کو ذہنی اذیت سے نجات دلائی جائے یہ بات انہوں نے عدالت روڈ پر لاپتہ افراد کے کیمپ میں پریس کانفرنس کے دوران کہی اس موقع پر ماما قدیر بلوچ، حوران بلوچ سمیت دیگر بھی موجود تھے۔
انہوں نے کہا کہ دلجان کو 12جون 2024 کو ضلع آواران کے علاقے تیرتیج مزار آباد سے فورسز نے ماورائے آئین گرفتاری کے بعد جبری لاپتہ کردیااہلخانہ نے ان کی جبری گمشدگی کے خلاف رواں سال 4 اکتوبر کو ڈی سی آفس آواران کے سامنے احتجاج دھرنا دیا لواحقین کا دھرنا 4 دن تک جاری رہا ڈی سی عائشہ زہری ،میراورنگ زیب اور تحصیل کے اے سی مجیب الرحمن نے لواحقین سے مذاکرات کرکے انہیں یقین دھانی کرائی کہ دلجان 10 دن میں گھر پہنچ جائے گا
جبکہ ایک مہینہ گزر گیا ہے لیکن انتظامیہ لواحقین کو کچھ بھی معلومات فراہم نہیں کر رہی ہے
جسکی وجہ سے دلجان کے لواحقین نے دوبارہ ڈی سی آفس آواران کے سامنے 5 روز سے دھرنا دے کر بیٹھے ہوئے ہیں اور باحفاظت بازیابی کا مطالبہ کررہے ہیں لواحقین کو انصاف فراہم کرنے کی بجائے فورسز انہیں مختلف طریقوں سے ہراساں کرکے احتجاج ختم کرنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں
جو ملکی قوانین اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے جس کی مذمت کرتے ہیں اور صوبائی حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کا وہ ڈی سی آواران کے آفس کے سامنے دلجان کی جبری گمشدگی کے خلاف دھرنے پر بیٹھی ہوئی خواتین اور بچوں کے احتجاج کا نوٹس لے اور ان سے بامقصد مذاکرات کرکے باحفاظت بازیابی کو فوری طور پر یقینی بنانے میں اپنا کردار ادا کرے تاکہ جبری گمشدگی کے وجہ سے انکے لواحقین جس ذہنی کرب و اذیت میں مبتلا ہے
انہیں نجات مل سکے انہوں نے کہا کہ گزشتہ روز وزیراعظم کے سربراہی میں ہونے والے ایپکس کمیٹی نے بلوچستان میں آپریشن کی منظوری دی ہے جو باعث تشویش ہے
اور اسے ہم غلط فیصلہ سمجھتے ہیں اگر دیکھا جائے بلوچستان میں جب بھی طاقت کا استعمال کیاگیا
ان سے کوئی بہتری نہیں آئی بلکہ ہر آپریشن کے بعد حالات زیادہ خراب ہوئے بلوچستان میں ملکی آئین و قانون اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کی گئی جبری گمشدگیوں میں اضافہ ہوا اور ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کے مسخ شدہ لاشیں پھینکی گئی تو اس سے عام لوگوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالیں گے
اور ان کے نتائج بھی منفی برآمد ہونے کے ساتھ صوبے میں بدامنی، نفرت اور شدت پسندانہ سرگرمیوں میں اضافہ ہوا ہے اس لیے ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ بلوچستان میں طاقت کے استعمال سے گریز کرکے بامقصد مذاکرات کے حوالے مثبت فیصلے کریں
اہل بلوچستان کے احساس محرمیوں کا ازالہ کرے تمام لاپتہ افراد کی بازیابی کو یقینی بنائے جن لاپتہ افراد پر الزام ہے انہیں عدالتوں میں پیش کرے جبری لاپتہ افراد کو فیک انکائونٹر میں قتل کرنے کے سلسلے کو بند کیاجائے جو ریاست کے مجرم ہے انہیں عدالت کے ذریعے سزا دی جائے اور جبری گمشدگیوں کے مسلے کو ملکی قوانین کے تحت حل کرانے کے حوالے سے فوری طور پر عملی اقدامات اٹھائے جائے۔
Leave a Reply