کوئٹہ: بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں بلوچستان ایمپلائز سوشل سیکورٹی انسٹیٹیوشن کا ترمیمی مسودہ قانون پیش ہونے پر متعلقہ کمیٹی کے سپرد کردیا گیا،
وزیراعلیٰ کا اپوزیشن اراکین کی جانب سے وقفہ سوالات میں تقاریر کرنے پر اعتراض، مولانا ہدایت الرحمن کا اپوزیشن اراکین کے حلقوں میں مداخلت بند کرنے کا مطالبہ۔
بلوچستان اسمبلی کا اجلاس پیر کو 20منٹ کی تاخیر سے ڈپٹی اسپیکر غزالہ گولہ کی زیر صدارت شروع ہوا۔ اجلاس میں وقفہ سوالات کے دوران ضمنی سوالات پر اپوزیشن لیڈر میر یونس عزیز زہری، پبلک اکائونٹس کمیٹی کے چیئر مین اصغر علی ترین، مولانا ہدایت الرحمن کی جانب سے تقاریر کرنے پر قائد ایوان میر سرفراز بگٹی نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ قانون کے تحت محرک ارکان اسمبلی 2ضمنی سوالات اور ایک سوال کوئی دوسرا رکن پوچھ سکتا ہے۔
وقفہ سوالات کے دوران تقاریر نہیں کی جاتیں، اس کے لئے تحریک التواء، پوائنٹ آف آرڈر سمیت دیگر قوانین موجود ہیں جس رکن نے کسی مسئلے پر طویل بات کرنی ہے وہ اسمبلی قوائد کے تحت طریقہ کار کو اختیار کرے۔ ایوان کا وقت قیمتی ہے اسے ضائع نہ کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اسمبلی اس صوبے کا سب سے مقدس ادارہ ہے، اسے قانون کے تحت چلانا چاہیے۔
لمبی لمبی تقاریر کرنا کونسا طریقہ ہے سیاسی کلچر، اخلاقیات کو اپنا یا جائے۔
میں اپوزیشن کی تقاریر سننے کو تیار ہوں اور آئندہ بھی انہیں سنوں گا مگر ایوان کو قانون کے مطابق چلایا جانا چاہیے۔
وزیراعلیٰ نے اجلاس کی صدارت کرنے والی ڈپٹی اسپیکر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہ انکا کام ہے کہ وہ ایوان کو قواعد اور قانون کے تحت چلائیں، جو وہ نہیں چلا رہی ہیں۔
وزیراعلیٰ کے اعتراض پر حق دو تحریک کے رکن مولانا ہدایت الرحمن نے کہا کہ جب میں تقریر کرتا ہوں تو کہتے ہیں گوادرمیں جا کر تقریر کرو اور اب میں سوال کر رہا ہوں تو وہ سوال نہیں کرنے دے رہے۔
انہوں نے کہا کہ کیا وزراء قانون کے مطابق چل رہے ہیں؟ صادق عمرانی کو کہیں کہ حکومت چلائیں۔
انہوں نے کہا کہ میں نے ہسپتال کا مسئلہ اٹھایا ہے اور اس پر سوال کر رہا ہوں۔ اجلاس کے دوران وقفہ سوالات کے دوران محکمہ صحت اور محکمہ مواصلات و تعمیرات سے متعلق سوالات کے جوابات موصول ہونے پر نمٹا دئیے گئے۔
اجلاس میں نیشنل پارٹی کے رکن میر رحمت صالح بلوچ کا توجہ دلائو نوٹس محرک اور متعلقہ وزیر کی عدم موجودگی کی بناء پر نمٹا دیا گیا۔
اجلاس میں صوبائی وزیر صحت بخت محمد کاکڑ نے صوبائی وزیر محنت و افرادی قوت کی جانب سے بلوچستان ایمپلائز سوشل سیکورٹی انسٹیٹیوشن کا ترمیمی مسودہ قانون پیش کرنے کی تحریک پیش کی۔
تاہم قائد حزب اختلاف میر یونس عزیز زہری کی تجویز پر قانون کو مستثنیٰ قرار دیکر منظور کرنے کے بجائے متعلقہ کمیٹی کے سپرد کردیا گیا۔
اجلاس میں پوائنٹ آف پبلک انٹرسٹ پر اظہار خیال کرتے ہوئے مولانا ہدایت الرحمن نے کہا کہ 9دن سے کوئٹہ سے اغواء ہونے والے بچے مصور کاکڑ کو بازیاب نہیں کروایا جا سکا۔
ان کی بازیابی کے لئے لوگ احتجاج کر رہے ہیں، کیا یہ حکومت کی ناکامی نہیں ہے؟ بچے کو فوری طور پر بازیاب کروایا جائے۔
انہوں نے کہا کہ مجھ سمیت اپوزیشن کے تمام حلقوں میں مداخلت ہورہی ہے۔
ہمیں عوام نے ووٹ دیکر منتخب کیا ہے، اگر کام کرنے نہیں دیا جائے گا تو صوبے کی حالت کیسے بہتر ہوگی؟ انہوں نے کہا کہ اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر صرف اللہ سے ڈریں اور بلاخوف ارکان کو بات کرنے کی اجازت دیں۔
انہوں نے کہا کہ میں اپنے حلقے میں کام کرنا چاہتا ہوں، کیا ہم صرف ایوان میں تقاریر کریں؟ انہوں نے کہا کہ کرپشن اور بندر بانٹ نے بلوچستان کو برباد کردیا ہے۔ اگر میرے حلقے میں مداخلت بند نہ ہوئی اور کام نہ کرنے دیا گیا تو میں الٹی تقریر کر کے کہوں گا کہ حکومت نے صوبے میں دودھ اور شہد کی نہریں بہادی ہیں۔
بعدازاں ڈپٹی اسپیکر نے بلوچستان اسمبلی کا اجلاس جمعرات کی سہ پہر تین بجے تک کے لئے ملتوی کردیا۔
Leave a Reply