پی آئی اے کی خریداری کے لیے سرمایہ کارو ں کے تقاضے پر بیوروکریٹک پیچیدگیوں کی وجہ سے حکومت ائیرلائنز کی فروخت کے حوالے سے آئی ایم ایف سے 26 ارب روپے ٹیکس چھوٹ مانگے گی۔
اطلاعات کے مطابق حکومت نے پاکستان انٹرنیشنل ائیرلائنز کو ممکنہ سرمایہ کاروں کے لیے زیادہ پرکشش بنانے کے لیے 26 ارب روپے کی ٹیکس چھوٹ کی منظوری آئی ایم ایف سے طلب کی ہے۔
یہ اقدام پی آئی اے کی نجکاری کی کوششوں میں ایک اور چیلنج کے طور پر سامنے آیا ہے جہاں ٹیکس چھوٹ سرمایہ کاروں کے بڑے مطالبات میں سے ایک ہے۔
نجکاری وزیر عبدالعلیم خان نے گزشتہ دنوں ایک پارلیمانی پینل کو بریفنگ دیتے ہوئے انکشاف کیا کہ پی آئی اے کی فروخت کی کامیابی کے لیے اہم ٹیکس چھوٹ اور مالیاتی ایڈجسٹمنٹ ضروری ہیں تاکہ اسے ممکنہ سرمایہ کاروں کے لیے پرکشش بنایا جا سکے۔
یہ انکشاف سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے نجکاری کے اجلاس کے دوران کیا گیا جس کی صدارت سینیٹر طلال چوہدری نے کی۔
کمیٹی کو بتایا گیا کہ سرمایہ کاروں کے بنیادی مطالبات میں نئے طیاروں کی شمولیت پر ایڈوانس جنرل سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) سے استثنیٰ شامل ہے جو آپریشنل لاگت کو کم کرے گا اور پی آئی اے کی مالی حالت کو بہتر بنائے گا۔
مزید برآں حکومت کو 45 ارب روپے کی منفی ایکویٹی کے مسئلے سے نمٹنا ہوگا جس میں پرانی مالی ذمہ داریوں کو ختم کر کے سرمایہ کاروں کے لیے مالی طور پر صاف ستھرا میدان فراہم کرنا شامل ہے۔
آئی ایم ایف کی جانب سے ٹیکس چھوٹ اور مالیاتی ڈھانچے کی منظوری ضروری ہے کیونکہ عالمی ادارے کی منظوری پاکستان کے وسیع اقتصادی فریم ورک پر اثر ڈالتی ہے جو اس کے ایکسٹینڈڈ فنڈ فیسیلیٹی (EFF) پروگرام کے تحت ہے۔
سرمایہ کاروں کے تین بنیادی مطالبات میں 26 ارب روپے کی ٹیکس چھوٹ، 10 ارب روپے کی برج فنانسنگ لاگت کو معاف کرنا اور پی آئی اے کی 12 ارب روپے مالیت کی اسلام آباد کی جائیداد کی منتقلی شامل ہیں۔
پی آئی اے کی نجکاری کیلئے دوبارہ بولیاں لینے کا فیصلہ اسی بنیاد پر کیا گیا کہ مزید خسارے سے بچا جاسکے اور پی آئی اے کو ایک منافع بخش ادارہ بنایا جائے جس سے ملکی معیشت پر مثبت اثرات پڑیں۔
Leave a Reply