وفاقی کابینہ کی اکثریت نے خیبر پختونخوا میں گورنر راج نافذ کرنے کی حمایت کردی ہے۔
ذرائع کے مطابق حکومت نے کے پی کے میں گورنر راج نافذ کرنے سے پہلے پیپلز پارٹی، قومی وطن پارٹی اور اے این پی سے مشاورت کا فیصلہ کیا ہے۔
وزارت قانون اور اٹارنی جنرل نے وفاقی کابینہ کو کے پی میں گورنر راج کے نفاذ کے حوالے سے اپنی رائے دے دی ہے۔
خیبرپختونخوا نے خود 2 بار وفاق پر چڑھائی کر کے گورنر راج کا جواز پیدا کیا ہے۔
وفاق پر چڑھائی میں سرکاری ملازمین اور سرکاری مشینری استعمال کی گئی۔
اطلاعات کے مطابق وفاقی کابینہ کے اجلاس میں صرف اس ایک نکاتی ایجنڈے پر غور ہوا، سیاسی اتحادیوں اور اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیکر گورنر راج سے متعلق حتمی فیصلہ کیا جائے گا۔
بہرحال کسی بھی صوبے میں گورنر راج کا نفاذ غیر معمولی حالات کے پیش نظر آئینی و قانونی طریقے سے لاگو کیا جاتا ہے۔
ملک کے ایک صوبے میں وزیراعلیٰ اور صوبائی اسمبلی کے اراکین عوام کے منتخب کردہ نمائندے ہوتے ہیں جو اس صوبے کے حکومتی اور انتظامی امور چلاتے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ صوبوں میں وفاق کا نمائندہ گورنر بھی موجود ہوتا ہے گو کہ عام حالات میں گورنر کا عہدہ محض علامتی ہوتا ہے اور صوبے میں حکومتی پالیسیوں پر عملدرآمد کروانا منتخب صوبائی حکومت کے ذمے ہوتی ہے مگر جب گورنر راج لگتا ہے تو ایک محدود مدت کے لیے تمام تر اختیارات گورنر کے پاس آ جاتے ہیں اور وزیراعلیٰ اور ان کی اسمبلی بے اختیار ہو جاتی ہے۔
آئین پاکستان کے دسویں باب میں دو شقیں ایسی ہیں جن کی بنیاد پر صوبے میں ایمرجنسی یا گورنر راج لگایا جا سکتا ہے۔
ان میں آرٹیکل 232 اور 234 شامل ہیں۔
اگر صدرِ پاکستان سمجھتے ہیں کہ پاکستان یا اس کے کسی حصے کو جنگ یا بیرونی خطرات لاحق ہیں یا ایسی اندرونی شورش ہے جو صوبائی حکومت کے بس کی بات نہیں، تو وہ ایمرجنسی اور گورنر راج نافذ کر سکتے ہیں۔
ایمرجنسی کی صورت میں اس صوبے کے انتظامی امور اور قانون سازی کا اختیار وفاق میں پارلیمان کے پاس منتقل ہو جائے گا۔
وفاقی حکومت خود یا صوبائی گورنر کو اختیار دے سکتی ہے کہ وہ وفاقی حکومت کے نمائندے کے طور پر وہاں تمام امور سرانجام دیں۔
تاہم صوبے کی ہائی کورٹ کے اختیارات وفاقی حکومت یا گورنر کو منتقل نہیں ہوتے۔
بہرحال وفاقی کابینہ کی جانب سے اس اقدام کی وجہ صوبائی حکومت کی وفاق پر لشکر کشی اور عدم استحکام کی صورتحال پیدا کرنا ہے۔
خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ، اس کی کابینہ اور جماعت کے اراکین اسمبلی مسلسل اسلام آباد پر لشکر کشی کر رہے ہیں جس میں صوبے کی پولیس سمیت تمام وسائل اور مشینری استعمال کی جارہی ہے جس کی براہ راست سرپرستی وزیراعلیٰ خیبرپختونخواہ علی امین گنڈا پور کرتے آ رہے ہیں۔
خیبرپختونخواہ میں امن و امان کی صورتحال انتہائی خراب ہے، کرم ایجنسی میں حالات مسلسل کشیدہ ہیں، دو گروپس کے درمیان تنازعہ چل رہا ہے اس میں 50 سے زائد افراد جان سے جاچکے ہیں۔
اس کے ساتھ دہشتگردی کے دیگر واقعات بھی رونما ہو رہے ہیں مگر خیبرپختونخواہ حکومت کی توجہ صوبے کے مسائل پر بالکل بھی نہیں ہے اور وہ صرف پی ٹی آئی کی احتجاجی لائن لے کر چل رہی ہے جو صوبے کے عوام کے ساتھ زیادتی ہے۔
کے پی کے میں گورنر راج کی وجہ مسلسل صوبائی حکومت کی انتشاری سیاست ہے جس کی بنیاد پر وفاقی کابینہ اب اس معاملے کی طرف جارہی ہے۔
اگر کے پی کے میں گورنر راج کا نفاذ ہوتا ہے تو کیا تب حالات معمول پر آئیں گے، یہ بھی ایک بڑا سوال اور وفاقی حکومت کیلئے چیلنج ہے کیونکہ بعض سیاسی جماعتیں گورنر راج کی حمایت نہیں کریں گی۔
بہرحال وفاقی حکومت کے پی کے میں گورنر راج کے نفاذ کی بجائے 9 مئی سے لے کر گزشتہ روز کے احتجاج کی سرپرستی کرنے والوں کو قانون کے کٹہرے میں لائے تو آدھی سے زیادہ پی ٹی آئی قیادت جیل میں ہوگی۔
جبکہ گزشتہ روز کے احتجاج میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے حکم کی سنگین خلاف ورزی ہوئی ہے، عدالتی احکامات کے برعکس پی ٹی آئی نے احتجاج کیا ہے، لہذا کسی سے رعایت نہ برتی جائے اور نہ ہی نرم گوشہ اختیار کیا جائے، سخت کارروائی عمل میں لائی جائے تو وفاق پر لشکر کشی سمیت حساس مقامات پر احتجاج کرنے والوں کو ہزار بار سوچ کر قدم اٹھانا پڑے گا۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ وفاقی کابینہ کے پی کے میں گورنر راج کے نفاذ کی طرف جائے گی یا پھر دیگر قانونی آپشنز کے ذریعے انتشار پھیلانے والوں کو قانون کی گرفت پر لائے گی۔
خیبرپختونخواہ میں گورنر راج لگانے پر غور، وفاقی حکومت کیلئے دیگر سیاسی جماعتوں کو منانا آسان ہوگا؟
وقتِ اشاعت : 2 hours پہلے
Leave a Reply