کوئٹہ: جماعت اسلامی بلوچستان کے امیر و رکن صوبائی اسمبلی مولانا ہدایت الرحمان بلوچ نے کہا ہے کہ بلوچستان کے مسائل کے حل کیلئے 15 دسمبر کو بلوچ پشتون اقوام کے مشران کا جرگہ منعقد کیا جارہا ہے
جہاں بلوچستان سے متعلق فیصلے کیے جائینگے جرگے کے بعد علما اساتذہ اور نوجوانوں کے پاس بھی جائیں گے کیونکہ سی پیک ٹو سندھ اور پنجاب میں شروع کیا جارہا ہے
اور بلوچستان میں آپریشن کا فیصلہ کیا گیا ہے جس سے مزید نفرتیں بڑھیں گی مقتدرہ کو اپنی پالیسیوں اور اقدامات کا از سرنو جائزہ لیکر نوجوانوں کو روزگار فراہم کرکے پہاڑوں پر جانے والوں کی تعداد کم کرنا ہوگی
ان خیالات کا اظہار انہوں نے اتوار کو جماعت اسلامی کے صوبائی سیکرٹریٹ میں پریس کانفرنس کے دوران کیا
اس موقع پر دیگر عہدیداروںجن میں ڈاکٹر عطاء الرحمن، زاہد اختر ، بشیر احمد ماندائی، عبدالولی شاکر، مولوی نور اللہ، ڈاکٹر عطاء الرحمن، نعیم رند، عبدالحمید منصوری سمیت دیگر بھی موجود تھے۔
مولانا ہدایت الرحمان نے کہا کہ اسلام آباد میں سی پیک فیز 2 سندھ و پنجاب میں شروع کرنے اور بلوچستان میں آپریشن کرنے کا فیصلہ ہوا ہے ہم سمجھتے ہیں کہ
اس طرح کے فیصلوں سے مزید نفرتیں بڑھیں گی میں منتخب رکن اسمبلی اور جماعت کا ذمہ دار ہوں صوبائی کابینہ اور پارلیمنٹ کا کردار سب کے سامنے عیاں ہے پہلے نوکریاں بیچی جاتی تھیں اب محکمے بک رہے ہیں بیورو کریسی مکمل تباہ ہوچکی ہے حالات مزید خرابی کی طرف تیزی سے جارہے ہیں بلوچستان کے مذکورہ مسائل کے حل کے حوالے سے متعلق لائحہ عمل بنانے کیلئے پہلے ہم نے آل پارٹیز کانفرنس منعقد کی تھی
اور اب 15 دسمبر کو پشتون بلوچ اقوام کے مشران کا جرگہ منعقد کر رہے ہیں جہاں تمام مسائل اور انکے حل پر بحث کے بعد فیصلے کیے جائیں گے
جبکہ آنیوالے دنوں میں آل پارٹیز کانفرنس کے ساتھ علما اساتذہ اور نوجوانوں ، طلباء سمیت تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے افراد سے رابطے بڑھائیں گے اور جلسوں کا سلسلہ بھی شروع کرینگے
اس حوالے سے 8 دسمبر کو بلوچستان کے علاقے نوشکی اور 22 دسمبر کو گوادر میں جلسہ منعقد ہوگا اور ہم نے 6 ماہ کی مدت میں اپنا ہدف مقرر کیا ہے کہ کوئٹہ میں ایک لاکھ لوگوں کو اکٹھا کریں گے
اور پھر جو ہماری تحریک شروع ہوگی وہ سب کے سامنے ہوگی ہم نے مشترکہ فیصلہ کرنا ہے
کہ غیرت کی زندگی کی گزارنی ہے یا بے غیرت بنکر ظلم سہنے ہیں ہم اپنے لوگوں سے قسم ، حلف اور سوگند لیں گے انہوں نے اسلام آباد میں احتجاج کے دوران پی ٹی آئی کارکنوں پر تشدد اور بلوچستان کے 3 نوجوانوں کی ہلاکت کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ آج ان کے اہلخانہ کے ساتھ اظہار تعزیت اور فاتحہ خوانی کیلئے جائوں گا۔ انہوں نے کہا کہ سیکورٹی فورسز ، ایف سی اور کوسٹ گارڈ کے مظالم سے بلوچستان کے نوجوان تنگ ہیں اورنوجوانوں سمیت خواتین بھی خودکش بمبار بن رہی ہے بارڈر کی بندش اور روزگار چھیننے کے بعد نوجوان پہاڑوں کا رخ کررہے ہیں ہمیں بھی پہاڑوں پر بھیجنے کی ترغیب دی جاتی ہے تاکہ آسانی سے مار سکیں لیکن میں اپنی آئینی، جمہوری جدوجہد کو سیاسی طور پر جاری رکھوں گا
انہوں نے کہا کہ پہلے آصف علی زرداری نے بلوچستان پر مظالم کے خلاف عوام سے معافی مانگی تھی لیکن وہ سلسلہ پھر جاری ہے اب تو سی ٹی ڈی کی تحویل اور عدالت میں کیس کے باوجود لاشیں پھینکی جارہی ہیں اس طرح کے معاملات سے مسائل حال نہیں ہونگے
حکومت کہہ رہی ہے کہ امتحانی سینٹر کے باہر بھی ایف سی کھڑی کرینگے ایف سی کو پولیس کے اختیارات دینا ناانصافی ہے لسبیلہ میں خودکش کرنیوالے پر کوسٹ گارڈ کی جانب سے تین بار تشدد کیا کوسٹ گارڈ کے تشدد کی وجہ سے لسبیلہ کا نوجوان گیا اور خودکش حملہ کیالگتا ہے ریاست کو کوئلہ تانبا اور معدنیات چاہئے ہیں
لیکن بلوچستانی نہیں چاہئے بنگلہ دیش کے واقع سے سبق نہیں سیکھا جارہا ہے میں منتخب رکن اسمبلی ہوں جماعت اسلامی کا ذمہ دار ہوں بنگلہ دیش سیاسی یا کسی لسانی جماعت نے نہیں ٹوٹابنگلہ دیش میں غلط فیصلے کرنیوالی قوتیں آج بلوچستان میں سرگرم عمل ہیں صوبائی کابینہ اور پارلیمنٹ کا کردار سب کے سامنے ہے بلوچستان میں ہائی اسکول کا ہیڈ ماسٹر بھی حکومت نہیں لگا سکتی
ٹرانسفر پوسٹنگ کہیں اور سے ہوتی ہیں سیاست ہسپتال، سکول چلانا عسکری اداروں کا کام نہیں ہے بیوروکریسی مکمل تباہ ہوچکی ہے جس کا جو کام ہے وہی کام کرے بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے نیشنل ایکشن پلان 2 کرنے کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بلاول بھٹو زرداری اس کی وضاحت کریں
ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میں کور کمانڈر سے ملا ہوں بارڈر کے بارے میں آگاہ کیا تو کور کمانڈر نے بتایا کہ مذکرات کس سے کریں میں نے کور کمانڈر سے کہا کہ جرگہ کریں فیصلہ کریں اب تو نوجوانوں کی تعداد پہاڑوں پر بڑھ رہی ہے ملاقات میں سابق وزیر اعلی ڈاکٹر عبد المالک بلوچ اور دیگر اراکین بھی موجود تھے
بارڈر کی بات پر کور کمانڈر نے کہا کہ 300ارب کا نقصان ہوتا ہے کور کمانڈر سے فورسز کے رویے کی بات کی انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے ڈیڑھ کروڑ عوام تو دہشتگرد نہیں ہیں اسمبلی میں بات کرتا ہوں توپسینہ کسی اور کو آرہا ہوتا ہے اسمبلی میں مجھے کہا گیا
کہ بات آپ کر رہے ہو اغوا ہم نہ ہو جائیںہم بولیں گے چپ نہیں ہونگے اقتدار میں نہیں صرف بول رہے ہیں روز اول سے سن رہے ہیں پاکستان نازک دور سے گزر رہا ہے یہ دور کب ختم ہوگا خواتین پہلے کبھی خودکش نہیں تھیں جس خاتون نے خودکش کیا مالدار اور پڑھیں لکھی خاتون تھی انہوں نے کہا کہ پی ایس ڈی پی میں جو فنڈز ملے ہیں سب قوم اور حلقے پر لگائوں گا
میں نے گوادر میں ایک فٹ زمین قبضہ نہیں کی میں نے آج تک حرام نہیں کھایا اس لیے اسٹیبلشمنٹ سے بلیک میل نہیںمیں نے اپنے فنڈز سے گوادر سے کراچی تک فری ایمبولینس سروس شروع کی ہے جس کا مقصد غریب لوگوں کو سہولت مہیا کرنا ہے۔