آبی ذخائر میں کمی عالمی سطح پر ایک چیلنج بنتا جارہا ہے جس سے پیداواری صلاحیت متاثر ہورہی ہے۔
فوڈ سیکیورٹی کا بڑا ذریعہ پانی ہے جس کے بحران سے مستقبل میں بہت سے ممالک کی معیشت متاثر ہونے کا خطرہ ہے۔
اگر ہنگامی بنیادوں پر پانی کے ذرائع کے استعمال کے حوالے سے اقدامات نہ اٹھائے گئے گئے تو آئندہ برسوں میں آدھی سے زیادہ دنیا میں خوراک کی پیداوار کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔
یہ انتباہ گلوبل کمیشن آن دی اکنامکس آف واٹر کی ایک رپورٹ میں کیا گیا۔
اس رپورٹ کے مطابق دنیا کی 50 فیصد آبادی کو پہلے ہی پانی کی قلت کا سامنا ہے اور موسمیاتی بحران بدترین ہونے سے یہ تعداد بڑھنے کا خدشہ ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ بہت زیادہ طلب کے مطابق اس دہائی کے آخر تک تازہ پانی کی سپلائی میں 40 فیصد کمی آسکتی ہے کیونکہ دنیا کے پانی کے سسٹمز کو بہت زیادہ دبائو کا سامنا ہے۔
کمیشن نے یہ بھی دریافت کیا کہ دنیا بھر کی حکومتوں اور ماہرین کی جانب سے لوگوں کی پانی کی ضروریات کا درست تخمینہ نہیں لگایا گیا ہے ویسے تو ایک فرد کو صحت اور صفائی کے لیے روزانہ 50سے 100لیٹر پانی کی ضرورت ہوتی ہے مگر اچھی زندگی اور مناسب غذائیت کے لیے ایک فرد کو روزانہ 4 ہزار لیٹر پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔
بیشتر خطوں میں پانی کی اتنی مقدار کا حصول مقامی طور پر ممکن نہیں ہوتا تو لوگوں کو خوراک، ملبوسات اور دیگر اشیا کی ضروریات پوری کرنے کے لیے تجارت پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔
دنیا بھر میں 2 ارب سے زائد افراد کو پینے کے محفوظ پانی تک رسائی میں مشکلات کا سامنا ہے جبکہ 3.6ارب افراد کو محفوظ نکاسی آب تک رسائی حاصل نہیں۔
روزانہ ایک ہزار بچے صاف پانی تک رسائی نہ ہونے کے باعث انتقال کر جاتے ہیں۔
موسمیاتی بحران کے اثرات سب سے پہلے دنیا کے ہائیڈرولوجیکل سسٹمز پر محسوس کیے گئے اور کچھ خطوں میں یہ سسٹم منہدم ہونے کے قریب ہیں۔
ایمازون میں خشک سالی، یورپ اور ایشیا بھر میں سیلاب جبکہ پہاڑوں سے برف پگھلنے جیسے اثرات دیکھنے میں آئے ہیں جن سے خشک سالی اور سیلاب دونوں کی شدت میں اضافہ ہونے کا خدشہ ہے۔
لوگوں کی جانب سے پانی کا ضرورت سے زیادہ استعمال موسمیاتی بحران کو بدترین بنا دے گا مگر عالمی سطح پر اس بحران کی روک تھام کے لیے مشترکہ کوششیں نظر نہیں آرہیں۔
دنیا بھر کے ممالک کو پانی کے وسائل کے حوالے سے باہمی تعاون کو فروغ دینا وقت کی ضرورت بن چکا ہے ،ماہرین کے مطابق 2050 تک عالمی جی ڈی پی میں 8 فیصد کمی کا سامنا ہوسکتا ہے۔
دوسری جانب وزیراعظم شہباز شریف نے ون واٹر سربراہی اجلاس سے خطاب میں کہا ہے کہ پانی کے ذخائر تیزی سے کم ہو رہے ہیں، اس بحران پر قابو پانے کے لیے عالمی سطح پر کام کرنا ہوگا۔
وزیرِ اعظم محمد شہباز شریف نے گزشتہ روز سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں ون واٹر سربراہی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آبی ذخائر کو محفوظ بنانے کے لیے اہم اقدامات کرنا ہوں گے،پانی ہمارے سیارے کی لائف لائن ہے، معیشت اور فوڈ سکیورٹی کا اہم ذریعہ ہے۔
پاکستان کے لیے یہ چیلنجز نئے نہیں، ہم 2022کے سیلاب کے بعد سے اس سے نمٹنے کی کوشش کررہے ہیں۔
سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے اپنے خطاب میں کہا کہ پانی کی کمی ایک عالمی مسئلہ بن چکا ہے اور اس کا حل عالمی سطح پر مشترکہ کوششوں سے ہی ممکن ہے۔
بہرحال ون واٹر اجلاس آبی ذخائر کیلئے ایک بہترین قدم ہے جس سے دنیا کے بڑے ممالک کے ساتھ ملکر آبی ذخائر کے ذریعے فوڈ سیکیورٹی، پیداواری صلاحیت سمیت پانی کی ضروریات اور اس کے ضیاع کوروکا جاسکتا ہے۔
عالمی رہنماؤں نے ون واٹر اجلاس میں آبی ذخائر کیلئے مشترکہ عزم کا اظہار کیا ہے تاکہ مستقبل میں اس چیلنج سے نمٹا جاسکے۔
پانی بحران عالمی سطح پر معیشت کیلئے خطرہ، ون واٹر اجلاس عالمی سطح پر امید کی کرن!
وقتِ اشاعت : 8 hours پہلے
Leave a Reply