کوئٹہ: سابق صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن، علی احمد کرد نے کہا ہے کہ عدلیہ کی آزادی اور انصاف کے قیام کے لیے وکلا اور عوام کی جدوجہد کو کبھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
انہوں نے 2007 میں جنرل پرویز مشرف کے دور میں چلنے والی عدلیہ بحالی تحریک کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس تحریک کا مقصد صرف عدلیہ کی حرمت اور وقار کی بحالی تھا، نہ کہ کسی فرد یا شخصیت کا تحفظ۔
علی احمد کرد نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ تحریک کی کامیابی کے بعد سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے اس تحریک کو اپنی ذاتی کامیابی سمجھا اور آمرانہ فیصلوں کی جانب قدم بڑھایا، جس سے عدلیہ کی خودمختاری متاثر ہوئی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس دوران عدلیہ میں میرٹ کی بجائے پسندیدہ ججز کو لایا گیا، جس سے عوام کو انصاف کی فراہمی میں مشکلات آئیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ آج بھی کئی ججز، جیسے جسٹس منصور علی شاہ، نے اسٹیبلشمنٹ کے اثرات کو مسترد کیا اور عدلیہ کی آزادی کی حمایت کی۔ علی احمد کرد نے واضح کیا کہ اسٹیبلشمنٹ ماضی میں عدلیہ میں مداخلت کرتی رہی ہے، مگر اب ججز اس بات کا برملا اظہار کرتے ہیں۔
علی احمد کرد نے 26 ویں آئینی ترمیم کو مسترد کرتے ہوئے اعلان کیا کہ وکلا اور عوام کی مکمل حمایت سے جلد ایک نئی تحریک شروع کی جائے گی، جو اس ترمیم کو واپس کرانے اور عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنانے کے لیے کام کرے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ تحریک عدلیہ کی آزادی اور عوام کے حقوق کے تحفظ کے لیے ضروری ہے اور اس میں وکلا کی آواز بہت اہم ہے۔اس اقدام سے عوام میں عدلیہ کی آزادی کے بارے میں آگاہی بڑھے گی اور ایک مضبوط، آزاد عدلیہ کی بنیاد رکھی جائے گی جو عوام کے مفاد میں فیصلے کرے۔
Leave a Reply