کوئٹہ: بلوچستان نیشنل پارٹی کے سنٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی کے ممبر و ضلعی صدر غلام نبی مری نے بلوچستان کے مختلف شہروں میں تاریخی و قومی ہیروز اور مقامات کے ثقافتی مونومنٹ کو گرانے و قلات میں قومی شاہراہ پر نصب قلات میری کی مونومنٹ کو جلانے اور نقصان پہنچانے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ناروا عمل دہشت گردی کا تسلسل ہے
جو بلوچ قومی شناخت پر حملہ اور تاریخ کو قتل کرنے کے مترادف ہے انہوں نے کہا ہے کہ اس سے پہلے بھی گوادر میں قومی شاعر، ادیب اور دانشور سید ظہور شاہ ہاشمی کے مجسمہ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی تھی، چند ماہ پہلے پنجگور کے مین بازار چوک پر نواب اکبر خان بگٹی کے مجسمے کو گرایا گیا تھا۔ اس سے قبل کوئٹہ میں گورنر ہاؤس چوک پر بلوچ قومی تحریک کے سرخیل رہنما میر یوسف عزیز مگسی کے مجسمے کو توڑ دیا گیا اور امداد چوک پر مہرگڑھ کے تاریخی مونومنٹ کو بھی گرا دیا گیا تھا۔
تاریخی یادگاریں ہماری ثقافت، تاریخ اور شناخت کی عکاسی کرتی ہیں یہ ہمیں خاص تاریخی واقعات، تاریخی اشخاص اور ثقافتی ورثہ کی یاد دلاتی ہیں جو قوموں اور ثقافتوں کی نمائندگی کرتی ہیں۔ اگر ہم اپنے تاریخی یادگاروں کو زندہ رکھیں تو یہ ہمیں ماضی کی شناخت اور روایات کو سمجھنے میں مدد دیتی ہیں۔ یہ یادگاریں تعلیم و تربیت کا اہم ذریعہ ہیں جس سے طلبا اور محققین تاریخ کو جانچ سکتے ہیں اس کے علاوہ ان مونومنٹ کی سیاحتی اہمیت بھی ہیں
جو ہمیں قوموں کی قربانیوں اور کامیابیوں کی داستانیں سناتی ہیں اور قوم و وطن سے وفاداری اور قومی اتحاد کا درس بھی دیتی ہیں یہ مونومنٹس قوموں کی جمالیاتی قدروں کو بھی سامنے لاتی ہیں، ماضی کی قدر و قیمت کے ساتھ مستقبل کے تحفظ اور بقا کا جذبہ پیدا کرتی ہیں اور فنون لطیفہ، ادب، شاعری، مصوری اور موسیقی کی تحریک کا باعث بنتی ہیں۔
ہمیں ان کی حفاظت اور نگہداشت کرنی چاہیے نا کہ ان کو جلا کر خاکستر کریں۔ استعماری قوت بلوچوں کے وجود کے ساتھ بلوچوں کے تمدن، شناخت اور ثقافت کو بھی مسخ کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ یہ ناروا عمل بلوچ قومی وجود اور تاریخ کے ساتھ کھلواڑ ہے
جو نا قابل برداشت ہے انہوں نے بلوچستان کے دانشوروں، قلمکاروں، صحافیوں اور سنجیدہ سیاسی طبقوں سے گزارش کی ہے کہ وہ اس ناروا عمل کا سختی سے نوٹس لیں اور ایسی سازشوں کو ناکام بنانے کے لئے حکومت پر دباؤ ڈالیں۔
Leave a Reply