|

وقتِ اشاعت :   3 hours پہلے

تیسری دنیا کے ممالک میں غربت ایک بڑا چیلنج ہے ، بیروزگاری معاشی بدحالی کے باعث عام لوگ انتہائی غربت میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جس کی بڑی وجہ سرمایہ دارانہ نظام بھی ہے۔
اس نظام سے پاکستان بھی بری طرح متاثر ہے عام لوگوں کی آمدن انتہائی قلیل ہے اور انتہائی غربت کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔
سرمایہ دارانہ نظام سرعت کے ساتھ اپنے پائوں تیزی سے پھیلا رہا ہے جس میں پاکستان سمیت ایشیاء کے دیگر ممالک بھی شامل ہیں۔
ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس نظام کے طفیل پوری دنیا میں صنعتیں اور زرعی شعبہ فروغ پذیر ہوتا، کاروباری اور تجارتی سرگرمیوں میں اضافہ ہوتا، عام آدمی کو روزگار کے زیادہ اور بہتر مواقع ملتے اور اس کے نتیجے میں بے روزگاری کے ساتھ ساتھ غربت کی شرح بھی کم ہوتی اور خطِ افلاس سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کی تعداد کم ہوتے ہوتے صفر تک پہنچ جاتی لیکن چونکہ سرمایہ دارانہ نظام کم معاوضے میں زیادہ کام کرانے اور کم سرمایہ کاری کرکے زیادہ منافع حاصل کرنے کے استحصالی اصول پر چلتا ہے اس لیے اس نظام کے فروغ حاصل کرنے سے غربت کم ہونے کے بجائے اس کی شرح میں اضافہ ہو گیا ہے اور غریب، غیر ترقی یافتہ ممالک کے لوگ اس کا زیادہ شکار ہیں۔
غربت کے باعث غذائیت سے بھرپور خوراک سے لوگ محروم ہیں۔ عالمی ادارے کی ایک حالیہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان کی کل آبادی میں سے 66 فیصد آبادی غربت کے باعث وٹامنز اور پروٹین سے بھرپور خوراک خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتی۔ورلڈ فوڈ پروگرام کی رپورٹ میں پاکستان کے چاروں صوبوں میں غذائیت سے بھرپور خوراک کی دستیابی اور قیمتوں کا تجزیہ کیا گیا۔
رپورٹ کا مقصد بینظیر انکم سپورٹ جیسے سماجی تحفظ کے پروگرام کے ذریعے غذائیت سے بھرپور خوراک کی فراہمی میں چیلنجز اور اس پروگرام کی افادیت کا جائزلینا تھا۔
رپورٹ سے پتا چلا کہ انسانی جسم کو بھرپور غذائیت پہنچانے والی خوراک پاکستان کی اوسطاً66 فیصد آبادی کی پہنچ سے دور ہے اور صوبہ بلوچستان میں اس کی شرح سب سے زیادہ ہے۔
صوبہ بلوچستان کے دیہی علاقوں میں 84 فیصد جبکہ شہری علاقوں میں 78 فیصد افراد غذائیت سے بھرپور خوراک خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔
سندھ کے دیہی علاقوں میں 76 فیصد، شہری علاقوں میں 60 فیصد، پنجاب کے دیہی علاقوں میں 68 فیصد، شہری علاقوں میں 63 فیصد اور خیبرپختونخوا کے دیہی علاقوں میں 59 فیصد جبکہ شہری علاقوں میں 67 فیصد آبادی غذائیت سے بھرپور خوراک خرید نہیں سکتی۔ رپورٹ میں انسانی جسم کی بنیادی ضروریات پوری کرنے والی اور بھرپور غذائیت والی خوراک کے یومیہ اخراجات بھی بتائے گئے۔
رپورٹ کے مطابق بنیادی ضروریات پوری کرنے والی خوراک کے یومیہ اخراجات فی کس 18 سے 32 روپے ہیں اور قومی سطح پر ملک بھر میں صرف 5 فیصد یہ اخراجات کرنے سے قاصر ہیں تاہم جب غذائیت سے بھرپور خوراک کی بات ہوتی ہے تو اس کیلئے 67 سے 78 روپے فی کس روزانہ درکار ہوتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق اندازاً 6 افراد پر مشتمل کنبے کو ماہانہ کم از کم 14 ہزار روپے چاہیے ہوتے ہیں، ایسے میں اگر کنبے میں حاملہ، دودھ پلانے والی ماں، نومولود یا بڑھتی عمر کے بچے ہوں تو انہیں وٹامن اور فولاد سمیت کی غذائیت سے بھرپور خوراک کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔
رپورٹ میں بینظیر انکم پروگرام جیسے سماجی تحفظ کے پروگرام کو خواتین اور بچوں میں غذائیت کی کمی کیلئے اہم قرار دیا گیا ہے۔ بہرحال سماجی تحفظ جیسے منصوبوں کے ساتھ نظام میں بہتری لانے کی ضرورت ہے عام لوگوں کی زندگی میں تبدیلی لانے کیلئے ان کی آمدن کو بڑھانے کیلئے بڑی صنعتیں لگانے، روزگار کے دیگر ذرائع پیدا کرنے کی ضرورت ہے جس کا براہ راست فائدہ غریبوں تک پہنچے تاکہ ان کی زندگیوں میں خوشحالی آسکے اور غذائی قلت سمیت دیگر مسائل سے انہیں چھٹکارا مل سکے۔
یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ عام لوگوں کو مسائل سے نکالنے کیلئے ایسے منصوبے بھی لائے جس سے عام لوگ براہ راست مستفید ہوسکیں۔

 

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *