کوئٹہ: بلوچستان ہائی کورٹ کے معزز جج جناب جسٹس محمد کامران خان ملاخیل نے ڈاکٹر نبیلہ انور اور دیگر کی آئینی اور توہین عدالت کی درخواستوں پر سماعت کی۔
عدالت میں ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل اور ڈین پوسٹ گریجویٹ میڈیکل انسٹی ٹیوٹ (پی جی ایم آئی) نے 60 ڈاکٹروں کی فہرست پیش کی، جن کی پیمنٹ کے معاملات منظور کیے جا چکے ہیں،
اور ان کی ادائیگیوں کے بلز جاری کیے جا رہے ہیں۔ عدالت نے واضح ہدایات دیں کہ پی جی ایم آئی کے ٹرینیز کی ادائیگیوں میں کوئی رکاوٹ یا تاخیر نہیں ہونی چاہیے، اور تمام ضروری اقدامات فوری طور پر مکمل کیے جائیں۔ مزید برآں، بی ایم سی ہسپتال کے ہاؤس آفیسرز کے لیے فنڈز جاری کیے جانے کی اطلاع دی گئی، لیکن سیپ سسٹم کی تنصیب کی وجہ سے ادائیگی میں مزید 10 دن لگنے کا امکان ظاہر کیا گیا۔
عدالت نے تمام متعلقہ حکام کو 31 جنوری 2025 تک تمام زیر التوا معاملات کو مکمل کرنے کا حکم دیا۔
عدالت نے صحت کے محکمے کی عمارتوں پر غیر قانونی قبضوں کے مسئلے کو انتہائی سنجیدگی سے لیا اور حکم دیا کہ تمام غیر قانونی قابضین، جن میں رہائشی مکانات، ہاسٹلز، پارکنگ ایریاز، اور میڈیکل اسٹورز شامل ہیں، کو پندرہ دن کے اندر اندر نوٹس جاری کیے جائیں۔ ان احکامات پر عمل درآمد کے لیے متعلقہ ڈپٹی کمشنر اور سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس کو مکمل تعاون فراہم کرنے کی ہدایت کی گئی، اور خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف فوجداری مقدمات درج کرنے کا حکم دیا گیا۔
عدالت نے سیکرٹری صحت کو مزید ہدایت دی کہ محکمہ صحت کے تمام اداروں کے سربراہان کو سرکلر کے ذریعے ہدایات جاری کی جائیں کہ محکمہ صحت کے احاطے، ہسپتالوں، آر ایچ یوز، بی ایچ یوز بشمول ہاسٹلز اور اکیڈمک بلاکس میں کسی بھی قسم کے سیاسی اجتماع اور جلوس کی اجازت نہیں ہوگی۔ اس حوالے سے کس بھی طرح کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کرمنل پروسیڈنگز شروع کی جائیں اور کسی فرد کی جانب سے پریشر کی صورت میں ڈپٹی کمشنر فوری طور پر متعلقہ احاطے میں فورس کو تعینات کریں۔ عدالت نے مزید یہ بھی واضح کیا کہ صحت اور تعلیم کے شعبے کو لازمی خدمات کا درجہ حاصل ہے، اور ان محکموں کے ملازمین کو کسی بھی سیاسی سرگرمی یا ٹریڈ یونین میں شرکت کی اجازت نہیں ہے۔ خلاف ورزی کی صورت میں معاہدے ختم کرنے اور سخت قانونی کارروائی کا انتباہ دیا گیا۔
اسی طرح جس نے بھی دھرنے یا احتجاج میں شرکت نہ کرنے کا حلف نامہ جمع نہیں کراتا، اس کے خلاف تادیبی کارروائی شروع کی جائے۔ اگر جو ملازم کنٹریکٹ پر ہے تو اس کا کنٹریکٹ ختم کر دیا جائے، اور جو ملازم یا اہلکار مستقل عہدے پر ہے، اس کے خلاف بھی تادیبی کارروائی کی جائے۔
اسی طرح جس ملازم یا اہلکار کو ملازمت سے برخاست کیا گیا ہے یا جس کا کنٹریکٹ ختم کر دیا گیا ہو اسے ہسپتال کے احاطے میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ عدالت نے حکم دیا کہ پہلے مرحلے میں خلاف ورزی کرنے والوں کو شوکاز نوٹس جاری کئے جائیں اور اس وقت تک ان کا ہیلتھ کارڈ پینل سے نام نکال دیا جائے، تاہم مزید تادیبی کارروائی بھی کی جائے۔ جو کوئی بھی سروس آرڈر یا ریگولیٹری اتھارٹی کے ہدایات کی خلاف ورزی کرے گا،
چاہے وہ نجی ہسپتالوں یا صحت کے شعبے سے متعلق کوئی اور فرد ہو، اس کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے گی۔ عدالت نے سیکریٹری اور ڈی جی کو ہدایت کی وہ اپنے متعلقہ انتظامی دائرہ کار میں ایک عمومی سرکلر جاری کریں جس میں صحت کے محکمے کے تمام ملازمین کو اطلاع دی جائے کہ اگر ان کو اپنی ملازمت کے حوالے سے کوئی ذاتی شکایت ہو تو وہ متعلقہ اعلیٰ حکام کے پاس درخواست جمع کرا سکتے ہیں، جس پر جلد از جلد، ترجیحاً 60 دنوں کے اندر فیصلہ کیا جائے۔ عدالت نے سماعت کے دوران اس بات پر بھی تشویش کا اظہار کیا کہ گرینڈ ہیلتھ الاوئنس کے تحت محکمہ صحت کی ایسوسی ایشنز کے بعض عہدیداران الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر توہین آمیز مواد پھیلا رہے ہیں۔
اس ضمن میں عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ وہ اس حکمنامہ کی کاپی ایف آئی اے کوئٹہ کے سائبر کرائم ونگ کو فراہم کریں تاکہ ان کے خلاف تحقیقات کی جائیں اور عدالت میں رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کی گئی۔
عدالت نے چیف سیکریٹری بلوچستان کو فوری طور پر صحت کے اعلیٰ حکام کے ساتھ اجلاس منعقد کرنے کی ہدایت دی گئی، تاکہ صحت کے شعبے کے لیے ایک جامع حکمت عملی تیار کی جا سکے۔
عدالت نے حکم دیا کہ تمام متعلقہ حکام عدالتی احکامات پر عمل درآمد کے بارے میں رپورٹ 2 فروری 2025 تک جمع کرائیں۔ مزید یہ بھی واضح کیا گیا کہ سیکریٹری صحت اور ڈائریکٹر جنرل صحت کو عدالتی احکامات کی تعمیل تک ان کے عہدوں سے تبدیل نہیں کیا جائے گا۔
بعد میں کیس کی اگلی سماعت 6 مارچ 2025 کو مقرر کی گئی۔
Leave a Reply