|

وقتِ اشاعت :   2 days پہلے

کوئٹہ:سُپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر امان اللہ کنرانی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ جب بھی آئینی ترامیم چیلنج ہوئی ہیں اس کو سنجیدگی سے لیا گیا چاہے آئین میں آرٹیکل 13/14 ترامیم میں 58(2)B 63 A کا مسئلہ ہو یا 18 ویں ترمیم میں جوڈیشل کمیشن پاکستان و پارلیمانی کمیٹی کے ساخت کا آئین کے آرٹیکل 175-A میں ترمیم کا معاملہ ہر دو موقعوں پر نئی ترمیم کی شقوں پر عملدرآمد روک دیا گیا تھا

اب بھی آئین کے 26 ویں ترمیم کو وکلاء سمیت سیاسی پارٹیوں اور مختلف تنظیموں و افراد نے چیلنج کررکھا ہے مگر بدقسمتی سے ان مقدمات کی سماعت کیلئے ابھی تک تاریخ مقرر نہیں کی جارہی ہے

بلکہ اس پر عملدرآمد کے زریعے من پسند جج بھرتی کرنے کا کارخانہ کھولا جارہا ہے جس میں ریاست کے تین ستون مقننہ،عدلیہ،انتظامیہ میں سے 2 مقننہ و انتظامیہ کو برتری دلاکر عدلیہ میں تعیناتیوں کو بدنیتی کی بنیاد عجلت میں پائیہ تکمیل تک پہنچا کر ایک دوسری متبادل ڈوگر کورٹ تشکیل دیا جارہا ہے جس کو سرکار انکی انگلی پکڑ کر چلا سکے حالانکہ سپریم کورٹ کا رپورٹڈ فیصلہ PLD 2014 SC 131 کے اندر سپریم کورٹ کے تمام کے تمام 17 جج صاحبان نے مقننہ کے ممبران کو ترقیاتی فنڈ تجویز کرنے پر پابندی عائد کرکے اس کو سیاسی رشوت قرار دیا تھا آج پھر انہی مقننہ کی تجویز کردہ ججز کی تعیناتی کی سفارش عدلیہ کو سیاسی و گروہی وراثت میں تبدیل کردے گا

جس کے اثرات سالوں تک محسوس کئے جائیں گے بالاآخر یہ ترمیم بھی واپس لی جائے گی جیسے 2010 انہی سرکاری پارٹیوں نے مل کر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کیلئے سینارٹی کی بنیاد پر تقرری

کا فیصلہ کیا تھا آج انہی پارٹیوں نے 14 سال بعد اپنے ہی فیصلے پر پشیمان ھوکر اور اپنے تھوکے ہوئے کو چاٹتے ہوئے سینارٹی کے اصول کو ختم کردیا آج کل ججوں کی جس تواتر و طوالت کے ساتھ نام گردش کررہے ہیں جس میں ہر جوڈیشل کمیشن کا ممبر ہر آسامی پر اپنے اپنے ناموں کو تجویز کرکے عدلیہ کو جمعہ بازار بنارہے ہیں اس لئے اس موقع پر ہم محسوس کرتے ہیں کہ سرکاری روش سے عدلیہ کے کھلی مداخلت و اس کے اختیارات کو سلب ریاست کے تیسرے ستون کو دیوار سے لگا کر ریاست کے دو ستونوں کو برتری دینا ملک و قوم کے مستقبل کیلئے تباہ کُن ہوگا اس لئے میرا مطالبہ ہے جب تک آئین کے 26 ترمیم کے مقدمات کی شنوائی و فیصلہ سُپریم کے تمام 17 جج صاحبان نہ کریں اس وقت تک 26 آئینی ترامیم کے تحت تقرریوں کے عمل کو روکا جائے اور خودساختہ کنگرو ترمیم کے بل بوتے پر جوڈیشل کمیشن و پارلیمانی کمیٹیوں کو ججوں کی تقرری سے روکا جائے جیسے 18 ویں ترمیم کو چیلنج کرنے والے ندیم احمد شیخ کے کیس میں 2010 میں روکا گیا تھا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *