کوئٹہ: عدالت عالیہ بلوچستان نے ایک یکطرفہ فیصلہ میں انتہائی کج زہنی کا ثبوت دیتے ہوئے بلوچستان بھر کے تعلیمی اداروں میں سیاسی سرگرمیوں پہ پابندی کا حکم نامہ صادر کیا ہے جو انصاف کے تقاضوں کے برعکس ہے اور اس طرح کے فیصلے عدالتی نظام پہ سوالیہ نشان ہے۔
عدالت عالیہ کی جانب سے صادر کیا جانے والا فیصلہ باعث تشویش اور شرمناک ہے۔ بلوچستان جہاں انسانی آزادیاں پہلے سے سلب کی جاچکی ہیں، اظہار رائے آزادی جیسی چیز ناپید ہے جہاں ہرروز شہری جبری گمشدگیوں کا شکار ہورہے ہیں وہاں بجائے انسانی آزادیوں کی تحفظ عدالت کی اولین فرائض اور اپنے پیشے کے ساتھ انصاف ہے لیکن عدالت عالیہ بلوچستان ان تمام تر فرائض سے غفلت برت کر ریاستی جبر کا ہمکار بن رہی ہے۔
تعلیمی ادارے انسانی سماج کے روشن مستقبل کا ضامن ہیں اور یہی ادارے ہیں جہاں تخلیق و تحقیق کی راہیں کھلتی ہیں جہاں سے سیاسی لیڈرشپ تشکیل پاتی ہے دنیا بھر کے تعلیمی اداروں میں سیاسی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے دنیا کے سب سے قدیم اور باوقار ادارہ یعنی آکسفرڈ یونیورسٹی میں طلبا یونینز بلا تفریق کام کرتے ہیں اور ادارہ انہیں سیاسی ماحول فراہم کرنا اپنی زمہ داری کے ساتھ انجام دیتا ہے۔
بدقسمتی سے بلوچستان میں سیاسی سرگرمیوں پہ قدغنیں عائد ہیں اور پچھلے دو دہائیوں سے سیاسی کارکنان پہ قہر برپا کیا جارہا ہے۔ پاکستانی عدالتیں جہاں اشرافیہ کیلیے راتوں رات کھل جاتے ہیں اور سوموٹو جاری کرتے ہیں تو وہیں بلوچستان کے محکوم اقوام کو مزید محکومیت میں دھکیلنے اور ریاستی جبر کو جسٹیفائی کرنے کا کردار ادا کررہے ہیں۔
بلوچستان جیسے پسماندہ سماج کیلئے سیاست ہی واحد زریعہ ہے جہاں وہ اپنے انسانی حقوق کی تحفظ کیلئے سرگرم ہوسکتے ہیں اور اس میں طلبا سیاست نرسری کا کردار ادا کرتی ہے بدقسمتی سے عدالت عالیہ طلبا کی ان سرگرمیوں کو بند کرنے کی احکامات جاری کرتا ہے جس سے نہ صرف انسانی آزادی پہ قدغن ہوتی ہے بلکہ تعلیمی اداروں میں انتظامی کرپشن اور بدعنوانیوں کا راستہ ہموار کرتی ہے۔
کیا عدالت عالیہ بلوچستان بھر کے ان اداروں کو کھولنے، گھوسٹ اسکولز ختم کرنے، تعلیمی اداروں میں براجمان سیکورٹی اداروں کو نکالنے کا احکامات جاری کرسکتا ہے؟ لیکن ایسا کوئی احکامات ہمیں دکھائی نہیں دیتا، سرکاری سرپرستی میں چلنے والے ادارے ہر دوسرے دن بلوچستان بھر کے تعلیمی اداروں میں سیشنز منعقد کرتی ہیں کیا یہ احکامات ان پہ لاگو ہونگے یا صرف بلوچستان کے طلبا کی زبان بندی کیلئے ایسے احکامات جاری ہوتی ہیں۔
بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی عدالت عالیہ کے اس حکم نامے کو انسانی آزادی پہ حملہ سمجھتی ہے اور بلوچستان کے طلبا کی سیاسی حق پہ قدغن تصور کرتی ہے۔ یہ حکم نامہ بلوچستان بھر کے طلبا کے زبانوں پہ تالہ بندی کا سبب بنے گی، وہ طلبا جو پہلے سے جبری گمشدگیوں کا شکار ہورہے ہیں، ہراسمنٹ اور پروفائلنگ کا شکار ہورہے ہیں ایسے میں اس طرح کے عدالتی فیصلے مزید ان کے مسقبل کے ساتھ سنگین جبر ہے۔
جسے عدالتی احکامات کا نام دیا جارہا ہے درحقیقت یہ ان تمام سابقہ پالیسیوں کا تسلسل ہے۔ حال ہی میں بلوچستان بھر کے تعلیمی اداروں کے ہاسٹلز سے طلبا کو بیدخل کیا گیا جس میں بلوچستان یونیورسٹی، بولان میڈیکل کالج، لسبیلہ یونیورسٹی اوتھل اور دیگر ادارے شامل ہیں۔ تنظیم عدالت کے اس فیصلے کو تعلیمی اداروں می ملٹرائزیشن کا ایک کڑی سمجھتی ہے جو تعلیمی اداروں میں طلبا کی ہراسمنٹ، پروفائلنگ کو مزید تقویت دے گی۔
بلوچ طلبا کی تعلیمی و سیاسی حقوق کی تحفظ تنظیم کی اولین مقاصد میں ہے اور اس طرح کے تمام تر قدغنوں، بندشوں کی سخت الفاظ میں مزمت کرتی ہے۔ ہم عدالت عالیہ اور انصاف کے نظام سے منسلک باشعور افراد سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ اس فیصلے کیخلاف کردار ادا کریں اور انصاف فراہم کرنے والے ادارے کو اس طرح کے جبر کیلیے استعمال کرنے والے افراد کیخلاف اپنا پیشہ وارانہ کردار ادا کریں۔
بلوچستان بھر کے طلبا، سیاسی و سماجی کارکنان، میڈیا سمیت باشعور عوام سے ایسے احکامات کیخلاف آواز اٹھانے کی اپیل کرتے ہیں۔ تنظیم بلوچستان کے طلبا کی سیاسی حقوق کی تحفظ کیلیے تمام تر آئینی جدوجہد کا حق محفوظ رکھتی ہے اور اس عزم کا اعادہ کرتی ہے کہ ایسے تمام طلبا دشمن احکامات کیخلاف بلوچستان بھر کے طلباء تنظیموں کے ساتھ مل کر مشترکہ سیاسی مزاحمت کی جائے گی۔
Leave a Reply