کوئٹہ: بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان ہائی کورٹ نے تعلیمی اداروں میں سیاسی سرگرمیوں پر پابندی کا جو فیصلہ صادر کیا ہے، وہ نہ صرف غیر منصفانہ ہے بلکہ بلوچستان کے پہلے سے محدود جمہوری ماحول کو مزید گھٹن زدہ کرنے کی کوشش ہے۔
بلوچستان، جہاں شہری آزادیوں کی پامالی معمول بن چکی ہے، وہاں عدالتوں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ انسانی حقوق کی حفاظت اور آزادانہ اظہارِ رائے کے فروغ میں معاونت کریں۔
مگر اس کے برعکس، عدالت نے اپنی بنیادی ذمہ داری سے انحراف کرتے ہوئے ریاستی جبر کے لیے ایک قانونی جواز فراہم کیا ہے۔دنیا کے معتبر تعلیمی ادارے طلباء کو سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کا موقع فراہم کرتے ہیں تاکہ وہ مستقبل کے لیے بہتر قیادت تشکیل دے سکیں۔
تاہم بلوچستان میں سیاسی سرگرمیوں پر قدغنیں نہ صرف جمہوری روایات کے خلاف ہیں بلکہ طلبا کی فکری و تخلیقی نشوونما کو بھی متاثر کرتی ہیں۔بلوچستان جیسے پسماندہ خطے میں سیاست طلباء کے لیے واحد ذریعہ ہے
جس کے ذریعے وہ اپنے حقوق کے تحفظ اور سماجی مسائل کے حل کے لیے جدوجہد کرسکتے ہیں۔ طلباء تنظیمیں ہمیشہ سیاسی قیادت کی نرسری کے طور پر کام کرتی آئی ہیں،
اور ان پر پابندی سے نہ صرف تعلیمی ماحول متاثر ہوگا بلکہ تعلیمی اداروں میں بدعنوانی اور غیر شفافیت کے دروازے بھی کھل جائیں گے۔بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن عدالت کے اس یکطرفہ فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے اسے بلوچستان کے طلباء کی آزادی اور حقوق پر براہِ راست حملہ تصور کرتی ہے یہ فرمان بلوچستان کے طلباء کے مشکلات میں مزید اضافہ کریگا، وہ طلباء جو پہلے ہی جبری لاپتہ ہونے،
مسلسل ہراسانی اور پروفائلنگ جیسے جبر کا سامنا کر رہے ہیں یہ فیصلہ ان کے خلاف جاری مظالم کو جواز فراہم کرنے کی کوشش ہے
اس سے نہ صرف وہ اپنے جمہوری حقوق سے محروم ہونگے بلکہ ان کے تعلیمی مستقبل پر بھی گہرے اثرات مرتب ہونگے۔بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن مطالبہ کرتی ہیں کہ عدالت عالیہ اپنے اس فیصلے پر نظرثانی کرے اور تعلیمی اداروں میں آزادیِ اظہار اور طلباء کی سیاسی سرگرمیوں کو بحال کرنے کے لیے اقدامات کرے۔ ہم تمام طلبا تنظیموں، سماجی کارکنان، اور باشعور عوام سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس غیر منصفانہ فیصلے کے خلاف اپنی آواز بلند کریں۔
بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن طلباء کے تعلیمی اور سیاسی حقوق کے تحفظ کے لیے ہر ممکن آئینی اور جمہوری جدوجہد جاری رکھنے کا عزم کرتی ہے اور ایسے کسی بھی اقدام کے خلاف مشترکہ سیاسی مزاحمت کے لیے تیار ہے۔
Leave a Reply