|

وقتِ اشاعت :   15 hours پہلے

حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات چند روز سے ڈیڈ لاک کا شکار ہیں۔

حکومتی کمیٹی کی جانب سے اصرار کیا جاتا ہے کہ پی ٹی آئی اپنے مطالبات تحریری طور پر پیش کرے، جبکہ پی ٹی آئی کمیٹی ارکان نے بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کرکے حتمی مشاورت کا مطالبہ کیا ہے۔

بہرحال ایک واضح بات ہے کہ پی ٹی آئی کمیٹی بانی پی ٹی آئی کی ہدایات پر ہی مذاکراتی عمل کو آگے بڑھائے گی اور مطالبات کے نکات بھی بانی پی ٹی آئی دیں گے کیونکہ پی ٹی آئی کے تمام تر اہم فیصلے بانی پی ٹی آئی کی مرضی اور منشاء کے مطابق ہی ہوتے آئے ہیں۔

پی ٹی آئی کی مذاکراتی کمیٹی یا کور کمیٹی کے اپنے اجلاس بے معنی ہیں اس لئے پی ٹی آئی قیادت نے حکومتی کمیٹی کی جانب سے تحریری طور پر مطالبات پر بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کی شرط رکھی ہے تاکہ انہی سے مطالبات اور آگے کے لائحہ عمل کی ڈائریکشن لی جائے۔

بہرحال بانی پی ٹی آئی کے ساتھ ملاقات کا معاملہ حل ہوگیا، چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر نے گزشتہ روز بانی پی ٹی آئی سے اڈیالہ جیل میں ملاقات کی۔

میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر نے آگاہ کیا کہ بانی پی ٹی آئی نے حکومت کے ساتھ مذاکرات جاری رکھنے کی ہدایت کی ہے اور دونوں مطالبات تحریری طور پر حکومت کی کمیٹی کو دینے کی اجازت دے دی ہے۔

انہوں نے صحافیوں کو بتایا کہ بانی پی ٹی آئی نے کہا ہے مذاکرات کے لیے تیسری نشست ضرور ہونی چاہیے۔

بیرسٹر گوہر کے مطابق بانی پی ٹی آئی نے کہا ہے کہ اگر اس کے بعد مذاکراتی ٹیم کی ملاقات نہ کروائی گئی تو مذاکرات آگے نہیں بڑھ سکیں گے۔

واضح رہے کہ پی ٹی آئی اور حکومت کے درمیان مذاکرات کا عمل جاری ہے، اس حوالے سے دونوں فریقین کے درمیان بات چیت کے سیشنز بھی ہوچکے ہیں، پی ٹی آئی نے بانی پی ٹی آئی کی رہائی اور کارکنوں کے خلاف کریک ڈاؤن کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن بنانے کے مطالبات رکھے تھے تاہم حکومت کی جانب سے اصرار کیا گیا تھا کہ پی ٹی آئی تحریری طور پر اپنے مطالبات پیش کرے تاکہ بات چیت کو آگے بڑھایا جاسکے۔

بہرحال پی ٹی آئی اب دونوں مطالبات حکومتی کمیٹی کے سامنے رکھے گی مگر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ دونوں مطالبات کو تسلیم کیا جائے گا چونکہ بانی پی ٹی آئی سمیت دیگر پی ٹی آئی رہنماؤں اور کارکنان کے خلاف اہم کیسز ہیں جو کہ عدالتوں میں زیر سماعت ہیں جن کا فیصلہ عدالتوں سے ہوگا کہ انہیں رہائی ملے گی یا سزا دی جائے گی۔

البتہ جوڈیشل کمیشن کے مطالبے پر امکان ہے کہ پیشرفت ہو مگر رہائی کے مطالبہ پر بات چیت کا عمل پی ٹی آئی کی جانب سے ڈیڈ لاک کا شکار ہوسکتا ہے اور مذاکراتی عمل رک سکتا ہے۔

اگر یہ صورتحال رہی تو قوی امکان ہے کہ بانی پی ٹی آئی کی جانب سے سول نافرمانی کی تحریک اور احتجاجی شیڈول کے بیانات سامنے آئیں گے مگر اس کے باوجود پی ٹی آئی کو سیاسی طور پر کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا بلکہ مزید نقصان ہو گا۔

لہذا قانونی معاملات کے مطالبات عدالتی فیصلوں پر چھوڑا جائے، دیگر سیاسی معاملات پر بات چیت ہونی چاہئے تاکہ پی ٹی آئی کو سیاسی حوالے سے زیادہ گنجائش مل سکے۔

بہرحال احتجاجی سیاست سے اب تک پی ٹی آئی نقصان ہی اٹھاتی آرہی ہے، اب ایک موقع مذاکرات کا ہاتھ آیا ہے تو اس سے پی ٹی آئی سیاسی حوالے سے فائدہ اٹھائے اور بہتر طریقے سے پارلیمان میں اپنا کردار ادا کرے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت کیا گنجائش نکالے گی جس سے پی ٹی آئی کسی حد تک راضی ہوسکے، یہ حکومت اور پی ٹی آئی کی اگلی بیٹھک سے واضح ہو جائے گی کہ مذاکرات کس سمت میں بڑھ رہے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *