|

وقتِ اشاعت :   3 hours پہلے

بلوچستان میں کوئلہ کانوں میں دھماکے روز کا معمول بن چکے ہیں، بڑے حادثات کے باعث کان کن اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں جس کی بڑی وجہ حفاظتی اقدامات کا نہ ہونا ہے۔

گزشتہ روز کوئٹہ کے نواحی علاقے سنجدی میں کوئلے کی کان میں دھماکہ ہوا جس کے نتیجے میں 4 کان کن جاں بحق ہوئے۔

چیف انسپکٹر مائنز کے مطابق 8 کان کن تاحال پھنسے ہوئے ہیں۔

متاثرہ کان کنوں کا تعلق خیبر پختونخوا سے ہے، 8 کان کنوں کے زندہ بچ جانے کے امکانات بہت کم ہیں۔

ڈپٹی ڈائریکٹر ریسکیو کے مطابق کان کن 4 ہزار 200 فٹ گہرائی میں پھنسے ہوئے ہیں، کان کے داخلی دروازے سے ملبے کو بھاری مشینری کے ذریعے ہٹایا گیا۔

کان میں بجلی کی ایک ہی لائن تھی جو حادثے میں تباہ ہوگئی، زندہ بچنے والے کان کنوں کا کہنا ہے کہ دھماکا اتنا شدید تھا کہ کان کا بڑا حصہ بیٹھ گیا۔

بلوچستان میں کوئلے کی کانوں میں اکثر حادثات رونما ہوتے ہیں کیوں کہ کان مالکان حفاظتی طریقہ کار کی خلاف ورزی کرتے ہیں جس کی وجہ سے مزدور خطرناک حالات میں کام کرنے پر مجبور ہیں۔

گزشتہ سال 46 حادثات میں 82 کان کن جاں بحق ہوئے۔

گزشتہ سال جون میں کوئٹہ سے 50 کلومیٹر کے فاصلے پر سنجدی کے علاقے میں کوئلے کی کان کے اندر گیس بھرنے سے کم از کم 11 افراد جاں بحق ہوئے۔

ماہرین کی جانب سے متعدد بار یہ کہا گیا ہے کہ بلوچستان میں وینٹیلیشن کا مناسب انتظام ہو تو گیسوں کے جمع ہونے کی وجہ سے جو حادثات ہوتے ہیں انھیں روکا جا سکتا ہے۔

کانوں میں میتھین گیس اور کاربن مونو آکسائیڈ گیسیں ہوتی ہیں لیکن ان کی مناسب مانیٹرنگ کا نظام نہیں۔

اگر گیسوں کی مانیٹرنگ کا مناسب انتظام ہو تو ان کی موجودگی کا پتہ لگا کر ان کو کلیئر کرنے کے بعد کان کنوں کو بھیجا جا سکتا ہے جس کے نتیجے میں وہ محفوظ رہ سکتے ہیں۔

کانوں میں گیسوں کی موجودگی کا پتہ لگانے کے لیے ڈیجیٹل ڈیٹیکٹرز ہوتے ہیں لیکن بلوچستان کی کانوں میں ان کے استعمال کو یقینی بنانے کے بجائے پرانے طریقوں کو استعمال کیا جا رہا ہے۔

ایک بڑا مسئلہ بلوچستان کی کوئلہ کانوں میں ٹھیکیداری نظام ہے، کان مالکان لیز اپنے نام الاٹ کرانے کے بعد زیادہ تر خود کام نہیں کرتے بلکہ وہ ان کو ٹھیکیداروں کے حوالے کر دیتے ہیں اور پھر بڑے ٹھیکیدار آگے پیٹی ٹھیکیداروں کو یہ کام دے دیتے ہیں۔

ٹھیکیدار کو کان کنوں کا خیال نہیں ہوتا بلکہ ان کی توجہ صرف منافع کمانے اور زیادہ سے زیادہ کوئلہ نکالنے پر ہوتی ہے۔

ٹھیکیداری نظام کی وجہ سے حفاظتی انتظامات کو یقینی نہیں بنایا جاتا جس کی وجہ سے مزدوروں کی زندگیوں کو شدید خطرات لاحق ہوتے ہیں۔

بلوچستان کی مزدور تنظیموں کی جانب سے ٹھیکیداری نظام اور کوئلہ کانوں میں حفاظتی انتظامات نہ ہونے پر احتجاج بھی ریکارڈ کروائے گئے مگر صورتحال میں کوئی بہتری نہیں آئی ہے۔

مزدور تنظیموں کے رہنماؤں نے بھی یہ بات ریکارڈ پر لایا ہے کہ ٹھیکیدار با اثر لوگ ہوتے ہیں اس لیے ان کو سزا نہیں ملتی، جب سزا کا تصور نہ ہو تو وہاں لوگ بہت زیادہ خیال نہیں رکھتے۔

بہرحال بلوچستان سے کروڑوں ٹن کوئلہ نکالا جاتا ہے لیکن کان کنوں کے مسائل اور مشکلات کی جانب کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔

یہ حکومت اور کان مالکان دونوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ کانوں میں حفاظتی انتظامات اور کان کنوں کی سہولیات کو بہتر بنائیں تاکہ حادثات کا تدارک ہو سکے اور قیمتی جانیں ضائع ہونے سے بچ جائیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *