|

وقتِ اشاعت :   3 hours پہلے

گزشتہ دنوں اسرائیل کی صیہونی حکومت نے گریٹر اسرائیل کا نقشہ جاری کیا تھا۔
نقشے میں مقبوضہ فلسطینی علاقوں کے علاوہ اردن، شام، لبنان اور دیگر عرب ممالک کو صیہونی ریاست کا حصہ دکھایا گیا ہے۔
فلسطین، سعودی عرب، قطر، اردن اور متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کے نام نہاد تاریخی صیہونی ریاست کے متنازع نقشے کی مذمت کی ہے۔
سعودی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ ایسے بے بنیاد اور انتہاپسند اقدامات اسرائیلی حکام کے غاصبانہ ارادوں کو ظاہر کرتے ہیں، ایسے اقدامات قبضے کو مستحکم کرنے، ریاستوں کی خود مختاری پر حملے اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی کے ارادوں کو ظاہر کرتے ہیں، عالمی برادری خطے کے ممالک اور عوام پر جاری اسرائیلی مظالم کو روکنے کے لیے کردار ادا کرے۔
قطری وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ یہ اقدام دوسرے ممالک کی خود مختاری کی سنگین خلاف ورزی ہے۔
واضح رہے کہ اِس سے قبل مارچ 2023ء میں اسرائیل کے وزیر خزانہ بیزل سموٹریچ کو پیرس میں ایک تقریب سے خطاب کے دوران‘‘گریٹر اسرائیل’’کے نقشے کے ساتھ کھڑا دکھایا گیا تھا جس میں اردن کو اسرائیل کا حصہ دکھایا گیا تھا لیکن اس نئے نقشے میں اب کئی دوسرے ممالک کو بھی شامل کر لیا گیا ہے۔
اسرائیلی صہیونی ریاست اپنے مذموم مقاصد کیلئے پہلے سے ہی شام، لبنان، اردن اور ایران تک جنگ کا دائرہ پھیلا چکا ہے جبکہ غزہ میں روزانہ وحشیانہ حملوں کے ذریعے فلسطینیوں کی نسل کشی کی جارہی ہے۔
اسرائیلی فوج غزہ کے مختلف علاقوں پر قبضہ کرکے پیش قدمی کر رہی ہے اسی طرح شام کے علاقوں پر بھی حملہ آور ہو کر قبضہ کر رہی ہے۔
تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو عراق، لیبیا اور شام میں عدم استحکام پیدا کرکے حکومتوں کا تختہ الٹ دیا گیا حالانکہ صدام حسین، کرنل قذافی، اسد خاندان ڈکٹیٹر ضرور تھے مگر ان کی اپنے ملک میں دفاعی اور معاشی حوالے سے گرفت مضبوط تھی مگر ان کو راستے سے ہٹانے کا بنیادی مقصد ان ریاستوں کو کمزور کرکے مشرق وسطیٰ میں اپنی گرفت کو مضبوط کرنا تھا۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ دنوں بیان دیا تھا کہ حماس یرغمالیوں کو رہا نہیں کرے گا تو قیامت برپا ہوگی، یہ بالکل سیدھی دھمکی ہے اسرائیل کی پشت پر امریکی ریاست پوری طاقت کے ساتھ موجود ہے، ایران پر بھی اسرائیل نے بڑے حملوں کی منصوبہ بندی کر رکھی ہے تاکہ ایران کو دفاعی طور پر کمزور کیا جا سکے۔
ظاہر ہے ایران پر حملوں کے اثرات پاکستان پر بھی پڑنے کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا، پاکستان کے میزائل پروگرام کے بہانے پابندیوں کا مقصد جوہری ہتھیاروں پر نظر رکھنا ہے۔
بہرحال اب دنیا ایک بڑی جنگ کی طرف جانے والی ہے، مختلف بلاکس بنیں گی ایک بڑی تباہی ہوگی، اسرائیل اپنے مقاصد حاصل کرنے کیلئے کسی کو بھی خاطر میں نہیں لا رہا، تمام تر عالمی انسانی حقوق کی دھجیاں بکھیر کر، عالمی اداروں کی مذمتی قراردادیں، عالمی عدالت انصاف کے فیصلوں کو مکمل نظر انداز کرکے اپنے اہداف کے حصول پر لگا ہوا ہے جو گریٹر اسرائیل ہے۔
اگر اسلامی ممالک کے اتحاد نے بھرپور اور مشترکہ ردعمل سمیت مستقبل کی جنگ میں دفاع کی تیاری نہ کی تو مسلم ممالک بہت زیادہ کمزور پڑ جائیں گے جبکہ اسرائیل کی پشت پر عالمی قوتیں گریٹر اسرائیل کے حصول کیلئے صہیونی حکومت کا بھرپور ساتھ دیں گی۔
لہذا اسلامی ممالک کو مذمت سے آگے بڑھ کر اقدامات کرنے ہوں گے کیونکہ یہ اسلامی ممالک کی اپنی بقاء کی جنگ ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *