کوئٹہ: سنیئر سیاستدان سابق سینیٹر نوابزادہ حاجی لشکری رئیسانی نے کہا ہے کہ بلوچستان میں 2024ء کے الیکشن کا فیصلہ عوام نے نہیں مقامی ہوٹل میں کیا گیا، بلوچستان اسمبلی میں قانون سازی نہیں بلکہ عوام کے حقوق کی نیلامی ہورہی ہے، سیاسی جماعتیں عوامی مفادات گروہی سیاست پر قربان کر کے سرمایہ داروں کا مرکز بن گئیں
، صوبے میں لوٹ مار کا بازار گرم ہے، ملک کے تمام ادارے مفلوج ہیں، لوگ اپنے مفاد میں انہیں استعمال کررہے ہیں، سینیٹ الیکشن میں باہر سے لوگ لاکر ایڈجسٹ کیے گئے، بلوچستان کا مسئلہ طبقاتی نہیں قومی ہے اس کو غلط تعبیر کرکے صوبے کے لوگوں کو آپس میں دست وگریباں کیا گیا ہے، جمہوری پارلیمانی نظام سے ہی مسائل کا حل ممکن ہے، جہاں لوگ اجتماعی طور پر اپنے معاملات پر بات کرکے ان کا حل تلاش اور قانون سازی کے ذریعے معاملات کو حل کریں، حقیقی سیاسی عمل اور پارلیمانی سیاست کے ذریعے کرپٹ لوگوں کا راستہ روک کر صوبے کے مسائل اور بحرانوں میں کمی لائی جاسکتی ہے، انتخابات کا مقصد سابق نمائندئے کا احتساب اور نئے کا انتخاب کرنا ہوتا ہے مگر یہاں کنٹرولڈ اور انجینئرڈ انتخابات کرائے جاتے ہیں جس کے نتیجے میں لوگ مایوس ہوئے ہیں، سیاسی جماعتیں ایک کانفرنس منعقد کرکے قومی ایجنڈے کا تعین کرکے فیصلہ کریں کہ حکومت اور منتخب نمائندوں کا احتساب عوام کے ووٹ کے ذریعے ہو، شفاف الیکشن کے اصولوں کا تعین، آزاد خارجہ پالیسیاں تشکیل دی جائیں، شفاف معاشی نظام کیلئے پالیسی تشکیل دی جائے تب ہم بحرانوں سے نکلیں گے اور سیاسی جماعتیں یہ تہیہ کریں کہ آئندہ چور دروازے سے پارلیمنٹ میں داخل نہیں ہوں گی تب ہی ملک کو درپیش بحرانوں کے حل کی راہ ہموار ہوگی۔
یہ بات انہوں نے کوئٹہ پریس کلب کے دورے کے موقع پر صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہی۔
انہوں نے کہا کہ ملک کے تمام ادارئے مکمل طور پر مفلوج ہیں، جس ادارہ کو دیکھا جائے وہ اپنے ذاتی مفادات کے گرد گھوم رہا اور فیصلے افراد کررہے ہیں، 2024ء کے انتخابات سے قبل صوبے کی سیاسی جماعتیں، گلی محلوں، پارٹی اداروں اور دیہات میں لوگوں کے پاس نہیں گئیں بلکہ 2024ء کے الیکشن کا فیصلہ کوئٹہ کے ایک بڑئے ہوٹل میں کیا گیا اور اس چوک پر جہاں عموماً لوگ دھرنا دیئے بیٹھتے ہیں وہاں بلوچستان کی سیاسی پارٹیاں اپنے کوٹہ کی نیلامی میں مصروف تھیں، دوسری جانب صوبے کے دور دراز علاقوں میں لوگ بھوک افلاس، دہشت گردی اور ناانصافیوں کا شکار ہورہے تھے، اس سیاسی نیلامی کے بعد سیاسی پارٹیاں اپنا اپنا کوٹہ لیکر اسمبلی میں بیٹھی ہیں، جہاں قومی حقوق کی نیلامی اور سودے بازی ہورہی ہے، بظاہر اس اسمبلی میں حکومتی اور اپوزیشن جماعتیں ہیں لیکن دونوں کے درمیان نورا کشتی ہورہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ 2018ء کے انتخابات میں قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 265 پر انتخابی دھاندلی کا فیصلہ آج 2025ء میں بھی نہیں ہوپایا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سیاسی پارٹیوں نے ذاتی گروہی اور طبقاتی مفادات کیلئے قومی مفاد کو نیلام کردیا ہے، سیاسی پارٹیوں نے سیاسی کارکنوں کا سیاسی قتل کرکے پارٹی کے اندر اداروں کے دروازے ان پر بند کردیئے اور سرمایہ داروں، ٹھیکیداروں کیلئے عہدے اور پارلیمانی نشستیں مختص کی ہیں ایسی بھی سیاسی جماعتیں ہیں جو مذہب کے نام پر سیاست کرتی ہیں۔
انہوں نے ایسے لوگوں کو ایوان بالا میں بیٹھایا جو اب تک اس جماعت میں شامل ہی نہیں ہوئے، 2024کے انتخابات کے بعد ہونیوالے سینیٹ انتخابات میں کچھ لوگوں کو سینیٹ میں ایڈجسٹ کیا گیا جو صوبے میں پارلیمانی نظام کی توہین ہے، صوبے میں عموماً اور کوئٹہ میں خصوصاً باہر سے لاکر لوگوں کو عوام پر مسلط کیا گیا جن کا اس شہر سے کوئی تعلق نہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایک قوم پرست جماعت کے لیڈر نے کچھ عرصے پہلے قبائلیت پر تبصرہ کیا اور کہا کہ بلوچستان میں سیاسی عمل کو قبائیلیت نے آلودہ کیا حالانکہ ان کے اپنے حلقہ سے قومی اسمبلی کی نشست پر جیتنے والا شخص کسی قبائیلیت کی بنیاد پر نہیں جیتا بلکہ وہ پاکستانی بھی نہیں، سیاسی کوٹہ میں حصہ ملنے کے انتظار میں لوگ صوبے کے حالات کی غلط تعبیر کررہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کوئٹہ میں حال ہی ہونے والے ضمنی الیکشن کے نتائج کے خلاف قومی شاہراہوں پر دھرنے دے کر عوام کار راستہ بند کرنے والی سیاسی جماعتوں کو چاہیے تھا کہ جعلی انتخابات کا راستہ بند کرتیں،
انہوں نے کہا کہ صوبے کی پسماندگی کا ذمہ دار قبائلیت کو ٹھہرانے والوں سے سوال ہے کہ آج تو صوبے میں متوسط طبقے کی حکومت ہے اس سے قبل مری میں بھی معاہدئے کے تحت متوسط طبقہ کو حکومت دیئے جانے کا فیصلہ ہوا تھا پھر صوبے کے معاملات کو کیوں درست نہیں کیا۔
صوبے کے قبائلی نظم کو برباد کرنے کے بعد سیاسی نظم کو بھی برباد کرکے سیاسی گروہ بنائے گئے اور ان کیلئے سیاسی کوٹہ مختص کئے گیا ہے، صوبے کے طلباء ذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر اجتماعی قومی مفاد کیلئے تعلیمی اداروں کو امن کا گہوارہ بنائیں اگر ہم نے قومی نظم کا مظاہرہ نہ کیا اور ایک منظم سیاسی جدوجہد کے ذریعے اپنے مسائل حل نہ کیا تو آنے والے دنوں میں صوبے کے لوگ مزید افراتفری اور بحرانوں کا شکار ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان اسمبلی کی نشستوں میں اضافہ اس لیے نہیں کیا جارہا کہ بلوچستان کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے بلکہ یہ اضافہ اس لیے کیا جارہا ہے کہ تاکہ من پسند لوگوں کو ایڈجسٹ کیا جائے تاکہ اسٹیبلشمنٹ کے ایجنڈے کا تحفظ ان جعلی حلقوں اور نمائندوں کے ذریعے کیا جائے، اگر سیاسی کارکن اب بھی منظم نہیں ہوئے تو آئندہ پانچ سال کیلئے مزید لوگوں کو ایجاد کرکے صوبے پر مسلط کیا جائے گا فیصلہ کرنے والے سنجیدہ ہوتے تو بلوچستان اسمبلی کی نشستوں میں اضافے کی بجائے انسانی حقوق کے بل کو منظور کرکے لاپتہ افراد کو بازیاب کرایا جاتا۔
ایک سوال پر نوابزادہ حاجی میر لشکری خان رئیسانی نے کہا کہ بلوچستان کے موجودہ حالات کے ذمہ دار وہ ہیں جنہوں نے بلوچستان کے سیاسی عمل کو شفاف اور جمہوری طریقے سے آگے بڑھنے سے روکا، اس پالیسی کو ناکام بنانے کیلئے سیاسی کارکن سیاسی عمل کا حصہ بن کر پرامن سیاسی جدوجہد کریں۔
انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کے ایک ہوٹل میں بیٹھ کر صوبے کا فیصلہ کرنے سے سیاسی جماعتوں پر سے لوگوں کا اعتماد اٹھ چکا ہے، حقیقی سیاسی کارکن اپنے صوبے کو ایک بہت بڑے بحران سے بچانے کیلئے پرامن سیاسی جدوجہد کا آغاز کریں۔
سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے ساتھ ملکر پارٹی نہ بنانے سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ سابق سینیٹر مصطفیٰ کھوکھر اور ہمارے دیگر ساتھی یہ سمجھتے تھے کہ عوام کے حقیقی مسائل پر پارلیمنٹ میں بات نہیں ہورہی اس لیے ہم نے چاروں صوبوں میں عوامی پارلیمنٹ کا انعقاد کرکے سیمینار منعقد کئے تاہم جب شاہد خاقان عباسی، مفتاح اسماعیل نے پارٹی بنانے کی خواہش ظاہر کی تو میں اور میرے ساتھیوں نے ان پر واضح کیا کہ مائنس بلوچستان سیاست قبول نہیں کریں گے، اگر وہ پارٹی بنانا چاہتے ہیں کہ پہلے بلوچستان کا دورہ کرکے یہاں کے سیاسی کارکنوں، میڈیا، وکلاء، دانشوروں سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد سے ملاقاتیں کریں ان سے بات چیت ہو اس کے بعد ہماری کور کمیٹی اس حوالے سے فیصلہ کرئے گی، جس طرح آج بلوچستان میں سیاست ہورہی ہے شاہد ان کو بھی کہا گیا تھا کہ وہ مائنس بلوچستان سیاست کریں جس کو ہم قبول نہیں کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ میں اور میرے ساتھی ایک منظم انداز میں بلوچستان کے ایشوز کو اجاگر کررہے ہیں تاہم اب تک کوئی پارٹی بنانے سے متعلق کوئی فیصلہ نہیں کیا۔
2024ء کے انتخابات سے قبل ایک سیاسی جماعت میں شامل نہ ہونے سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ جس سیاسی جماعت کی مرکزی قیادت میرے پاس آئی میں نے صوبے کے اجتماعی، قومی مسائل ان کے سامنے رکھے تاہم انہوں نے اس کا مثبت جواب نہیں دیا۔
انہوں نے کہا کہ کوئٹہ اور صوبے کو سیاسی یتم خانہ بناکر باہر سے لوگوں کو یہاں لاکر انہیں ایڈجیسٹ کیا جاتا ہے، بلوچستان کو اس نہج پر لاکھڑا کرنے والے نہیں چاہتے کہ سیاسی عمل کے ذریعے بلوچستان کے معاملات کو ٹھیک کیا جائے، بلوچستان کو ایک سیاسی، سماجی، معاشی، معاشرتی اور آئینی و قانونی تھراپی کی ضرورت ہے۔
دانشوروں، باشعور طبقہ، طالب علموں، وکلاء، حقیقی سیاسی کارکن سماج کو بچانے کیلئے اپنا کردار ادا کرتے ہوئے ایک پرامن سیاسی جدوجہد کا آغاز کریں اور اجتماعی قومی ایجنڈے کے تحت آگئے بڑھیں۔
Leave a Reply