|

وقتِ اشاعت :   4 hours پہلے

کوئٹہ:  کوئٹہ سے 40 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع سنجدی کوئلہ کان سے 60 گھنٹوں کے بعد نکالی جانے والی نعشوں کی تعداد 11ہوگئی آخری کانکن کی تلاش تا حال جاری ہے

9 جنوری کو کوئلہ کان دھماکے سے بیٹھنے کی وجہ سے 12 کانکن اس میں پھنس گئے تھے گزشتہ روز محکمہ مائنز اور کانکنوں نے 4 نعشیں نکالی تھیں اب تک ریسکیو آپریشن کے دوران گزشتہ 3 روز میں کان سے نکالی جانے والی نعشوں کی تعداد 11 ہوگئی

تا حال ایک کانکن کی تلاش جاری ہے ذرائع کے مطابق کوئٹہ سے تقریبا 40 کلومیٹر دور سنجیدی میں نجی کمپنی یونائیٹڈ مائز کی کوئلہ کان میں جمعرات کی شام 6 بجے میتھین گیس بھر جانے کے باعث پیش آیا تھا- چیف انسپکٹر مائنز عبدالغنی بلوچ کا کہنا ہے کہ گیس کے دھماکے کی وجہ سے کان مختلف مقامات پر بیٹھ گئی اور 12 کانکن 3ہزار فٹ کی گہرائی پھنس گئے پہلے مرحلے میں ریسکیو کرکے 3 ہزار فٹ سے 4 کانکنوں کی نعشیں نکالی گئی جبکہ دیگر کانکن چار ہزار فٹ سے زائد کی گہرائی میں پھنس گئے تھے حکام کا کہنا ہے کہ پھنسے ہوئے کانکنوں کو نکالنے کے لیے مائنز انسپکٹریٹ اور پی ڈی ایم اے سمیت ریسکیو کی ٹیموں نے ریسکیو آپریشن کیا تاہم مزدور تنظیموں کا کہنا ہے کہ ریسکیو آپریشن کا زیادہ تر کام کانکن خود کررہے ہیں اور حکومت کی جانب سے امدادی سرگرمیوں میں تاخیر کی گئی جس کی وجہ سے کانکنوں کو زندہ نہیں بچایا جاسکا-چیف انسپکٹر مائنز عبدالغنی نے بتایا کہ ملبہ گرنے سے کان کے اندر داخل ہونے کا راستہ بند ہوگیا تھا جسے ہٹانے میں وقت لگا-

مائنز ریسکیو ٹیم مسلسل کام کررہی ہے اور اپنے تمام وسائل کو بروئے کار لائے گئے ہیں-

انہوں نے بتایا کہ پہلے دن ایک اور دوسرے دن تین کانکنوں کی لاشیں نکالی گئیں باقی سات کانکنوں کو تقریبا چار ہزار پانچ سو فٹ کی گہرائی سے اتوار کی صبح نکالا گیا -چیف انسپکٹر مائنز کے مطابق کان کے اندر بھی گیسز جمع ہونے اور ملبہ گرنے کی وجہ سے امدادی سرگرمیوں میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا-

انہوں نے بتایا کہ حادثے کی تحقیقات بھی شروع کردی گئی ہیں غفلت کا مظاہرہ کرنے پر کان کے مالک سمیت دیگر کے خلاف پولیس تھانہ ہنہ میں مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔ حادثے کا شکار ہونے والے کانکنوں میں 10 کا تعلق خیبر پشتونخوا کے ضلع شانگلہ، ایک کا ضلع سوات جبکہ ایک کا بلوچستان سے ہے- ان میں 5 کا تعلق ضلع شانگلہ کے ایک ہی گائوں بانڈہ میاں کلے پیرآباد سے تھا-امدادی سرگرمیوں میں حصہ لینے والے کان کن عبدالرحمان نے بتایا کہ دھماکہ اتنا شدید تھا کہ کان کا ایک بڑا حصہ بیٹھ گیا جبکہ کان سے باہر موجود کمرہ بھی منہدم ہوگیا۔

خیال رہے کہ کوئٹہ، مستونگ، کچھی، ہرنائی، دکی سمیت بلوچستان کے کئی اضلاع میں کوئلہ کے وسیع ذخائر پائے جاتے ہیں۔ ان کوئلہ کانوں میں 70 ہزار سے زائد کان کن کام کرتے ہیں جن میں سے اکثریت کا تعلق خیبر پختونخوا اور افغانستان سے ہے۔کوئلہ کانوں میں حفاظتی انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے حادثات معمول بن چکے ہیں۔ مائنز انسپکٹریٹ کے مطابق گزشتہ سال 46 حادثات میں 82 کان کن حادثات کا شکار ہوکر ہلاک ہوئے۔تاہم پاکستان سینٹرل مائنز لیبر فیڈریشن کے سیکرٹری جنرل لالہ سلطان کے مطابق حادثات کا شکار ہونے والے کان کنوں کی اصل تعداد زیادہ ہے۔

حکومتی ادارے، کان مالکان اور ٹھیکیدار حادثات اور اس میں ہونے والے نقصانات کو چھپاتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ہمارے اعداد و شمار کے مطابق 2024 میں صرف بلوچستان میں حادثات میں 129 کان کنوں کی موت ہوئی۔

مقامی کان کنوں نے بتایا کہ حادثہ جس کان میں پیش آیا وہ یونائیٹڈ مائنز کمپنی کی ملکیت ہے جو حفاظتی انتظامات کا خیال نہ رکھنے کے حوالے سے مشہور ہے اس کمپنی کی کان میں گزشتہ سال جون میں بھی ایک حادثے میں 11 کان کنوں کی موت ہوئی، جبکہ دو دیگر حادثات میں تین کان کنوں کی بینائی متاثر ہوئی۔

کان کنوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کے مطابق ان حادثات کی تحقیقات درست طریقے سے نہیں کرائی گئی اور اب تک پچھلے حادثات پر کوئی کارروائی نہیں کی گئی-۔

مزدور رہنما بخت نواب کے مطابق بیشتر کانکنوں کی عمریں 25 سال سے کم ہیں اور وہ آبائی علاقوں میں روزگار نہ ہونے کی وجہ سے کوئلہ کانکنی جیسے پرخطر شعبے میں کام کرکے روزگار کمانے پر مجبور تھے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *