ملکی معیشت میں بہتری کے حوالے سے روانہ خبریں دی جاتی ہیں، حکومتی سطح پر یہ دعویٰ بھی کیا جارہا ہے کہ مہنگائی کی شرح میں بتدریج کمی ہورہی ہے، اشیاء خورد و نوش سمیت دیگر چیزوں کی قیمتوں میں واضح کمی آرہی ہے مگرصورتحال حکومتی دعوئوں کے برعکس ہے عام مارکیٹ میں اشیاء خورد و نوش کی قیمتوں میں کوئی کمی دیکھنے میں نہیں آرہی بلکہ قیمتوں میں بتدریج اضافہ نوٹ کیا جارہا ہے ۔
عام لوگ اس پورے معاشی نظام میں پھنس کر رہ گئے ہیں،ملازمین کی تنخواہوں سے ٹیکس کی مدمیںکٹوتی کی جارہی ہے، سرکاری خزانے پر بوجھ کم کرنے کیلئے پنشن ختم کیا جارہا ہے، وفاقی محکموں میں آسامیاں بھی ختم کی جارہی ہیں جبکہ صوبائی سطح پر بھی محکموں میں بھرتیاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔
پرائیویٹ سیکٹر میں کام کرنے والے افراد کی تنخواہیں انتہائی قلیل ہیں، دیہاڑی دار طبقہ کی تو معاشی حالت بہت ہی زیادہ خراب ہے۔
جب معاشی صورتحال تنزلی کا شکار ہوتی ہے تو حکومتیں عوام سے قربانی کا تقاضہ کرتی ہیں، ٹیکسز سمیت تمام تر معاشی بحران کا بوجھ عام لوگوں پر لادھ دیا جاتا ہے مگر انہیں ریلیف کبھی بھی بڑے پیمانے پر نہیںدی جاتی۔ اب بھی حکومت ٹیکسز بڑھانے کی بات کرتی ہے مگر ایف بی آر میں اربوں روپے کی گاڑیاں خریدی جارہی ہیں، محکموں کے آفیسران کو تمام تر مراعات اسی طرح میسر ہیںنیز اسمبلی اراکین کو تمام تر مراعات فراہم کرنے کے باوجود اب ان کی تنخواہوں میں اضافہ کیا جارہا ہے ،یہ خود پارلیمانی اراکین کا مطالبہ ہے جس میں حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی شامل ہیں۔
قومی اسمبلی کے اراکین نے اسپیکر سے تنخواہوں میں اضافے کا مطالبہ کیا ہے۔
تنخواہوں میں اضافے کیلئے حکومت اوراپوزیشن یک زبان ہوگئے ہیں اراکین پارلیمنٹ نے اسپیکر ایاز صادق سے ملاقات کے دوران تنخواہوں میں اضافے کا مطالبہ کیا۔اس موقع پر اراکین پارلیمنٹ کا کہنا تھا کہ اسپیکرزکانفرنس کی سفارشات پرعمل کیا جائے۔
اسپیکر ایاز صادق سے ملاقات میں اراکین قومی اسمبلی نے شکوہ کیا کہ صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کی تنخواہیں اور مراعات ہم سے زیادہ ہیں لہٰذا ہماری تنخواہوں میں اضافہ کیا جائے۔
بہرحال حکومتی رضامندی پرقومی اسمبلی میں تنخواہوں میں اضافے کا بل پیش ہوگا، اس وقت ایم این اے کی تنخواہ اور ٹی اے ڈی اے ایک لاکھ 85 ہزارروپے ماہانہ ہے جبکہ دیگر سہولیات اور مراعات بھی الگ انہیں مل رہی ہیں ،ایک طرف عوام کااس معاشی صورتحال میں جینا محال ہے، دوسری جانب منتخب نمائندگان کو اپنی تنخواہوں میں اضافہ کی لگی ہے۔
یقین سے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ بیشتر اراکین اسمبلی عام مارکیٹ کی قیمتوں سے نا واقف ہیں کہ کس قدر مہنگائی ہے، غریب کیلئے گھر کا چولہا چلانا بھی مشکل ہوچکاہے،آئے روز کسی کی خود کشی کی خبر آجاتی ہے اوران عوامل کو نظر انداز کرکے ہمارے ہاں ایسے معاشی فیصلے کئے جارہے ہیںجو عوام کی زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔
اب یہی دیکھئے، حکومت نے آئندہ 15 روز کے لیے پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں اضافہ کر دیا ہے۔
پیٹرول کی قیمت میں 3 روپے 47 پیسے فی لیٹر اضافہ کیا گیا ہے جس کے بعد پیٹرول کی نئی قیمت 256 روپے 13 پیسے فی لیٹر، ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت 2 روپے 61 پیسے فی لیٹر اضافہ کے بعد 260 روپے 95 پیسے فی لیٹر مقرر کی گئی ہے۔
اس سے مہنگائی کی شرح میں مزید اضافہ ہوگا ،ٹرانسپورٹرز کرایے بڑھائیں گے، اشیاء خورد و نوش سمیت دیگر چیزوں کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا ،مہنگائی بے قابو ہوگا جس سے عام لوگوں کی مشکلات میں اضافہ ہوگا۔ خدارا ایسی معاشی پالیسیاں ترتیب دی جائیں جس سے کم از کم عام لوگوں پر بوجھ تو نہ بڑھے ،اگر ریلیف نہیں دی جاتی تو ان پرمزیدبوجھ نہ ڈالا جائے جس سے ان کی زندگی اجیرن ہوکر رہ جائے۔
Leave a Reply