اوتھل: جمعیت علما اسلام کے مرکزی جنرل سیکرٹری و رکن قومی اسمبلی مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا ہے کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی تحریک ہمیشہ پرامن رہی ہے اور وہ پرامن جہدوجہد پر یقین رکھتی ہے اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کی قیادت زیادہ تر خواتین پر مشتمل ہے
چاہے وہ بلوچستان سے اسلام آباد آئے یا بلوچستان میں کہیں انکے جلسے ہوں ہمیشہ پرامن ہی رہے کراچی میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے جلسے میں بلوچ خواتین کے دوپٹوں کو تار تار کرنا پاکستان کے آئین و قانون کی خلاف ورزی اور جمہوریت کی نفی ہے،
میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے جلسے پر سندھ پولیس کے دھاوے کی شدید مذمت کرتا ہوں ۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے بدھ کے روز SMCفارم اوتھل میں جمعیت علما اسلام کے مرکزی نائب امیر مولانا غلام قادر قاسمی اور سابق رکن صوبائی اسمبلی مکھی شام لعل لاسی کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا
انہوں نے کہا کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی نے ہمیشہ آئین اور قانون کے دائرے میں رہ کر احتجاج یا جلسے کیے ہیں گزشتہ دنوں بلوچ یکجہتی کمیٹی کی خواتین نے کراچی میں ایک پرامن جلسہ کیا
اس جلسے پر کراچی پولیس نے دھاوا بولا نہ صرف دھاوا بولا بلکہ بلوچ خواتین کی بے حرمتی کی اور بغیر کسی جواز کے انہیں گرفتار کیا انہوں نے کہا کہ اگر کوئی تنظیم تشدد کا راستہ اختیار کرے یا آئین و قانون کو ہاتھ میں لے شہریوں یا املاک کو نقصان پہنچائے تو پھر حکومت کا فرض بنتا ہے ک
ہ وہ کاروائی کرے اور اس میں لاٹھی چارج اور گرفتاریوں کا جواز بھی بنتا ہے لیکن جو تنظیم پرامن جہدوجہد پر یقین رکھتی ہو اسکے خلاف اس طرح کا ایکشن لینا تشدد کا راستہ اپنانا، خواتین کی بے حرمتی اور انکے دوپٹوں کو تار تار کرنا ملک کے آئین و قانون کی خلاف ورزی اور جمہوریت کی نفی ہے جسکے لیے میں اس واقعے کی شدید الفاظوں میں مذمت کرتا ہوں یہ کراچی پولیس کی دہشتگردی ہے
اس دہشتگردی کا ارتکاب سندھ حکومت کی ایما پر ہوا ہے انہوں نے کہا کہ جب میں جمہوریت اور آئین و قانون کی بات کرتا ہوں یا اپنا آئینی حق استعمال کرتا ہوں یہ حق مجھے ملک کا آئین اور جمہوریت دیتی ہے تو پھر اس قسم کا تشدد، بے توقیری یہ سیاسی جماعتوں کو اشتعال دلانے کے علاہ کیا ہوسکتا ہے
سیاست ہر جماعت کی اپنی ہے سیاست میں ہر جماعت کا اپنا نقظہ نظر ہوتا ہے بلوچ یکجہتی کمیٹی کا اپنا ایک نقطہ نظر ہے اور وہ اپنے نقطہ نظر میں آزاد ہے جمعیت علما اسلام کا اپنا ایک نقطہ نظر ہے ہم اپنے نقطہ نظر میں آزاد ہیں سیاست میں پی ٹی آئی، مسلم لیگ، پیپلز پارٹی، نیشنل پارٹی کا اپنا اپنا نقطہ نظر ہے اور بعض حالات کے پیش نظر ہم اتحاد، سیٹ ایڈجسٹمنٹ، انتخابی ایڈجسٹمنٹ بھی کرتے ہیں 2024کے انتخابات میں بھی سردار اختر مینگل کی پارٹی بلوچستان نیشنل پارٹی اور جمعیت علما اسلام ایک ساتھ تھے لیکن نظریہ اپنا اپنا ہے وہ نیشنلسٹ ہیں نیشنل ازم کی بات کرتے ہیں جبکہ ہم اسلامسٹ ہیں اسلام اور شریعت کی بات کرتے ہیں پاکستان کی بات کرتے ہیں مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا کہ میں میڈیا کے توسط سے پاکستان کے اداروں اور حکومت پاکستان کو بھی کہنا چاہتا ہوں
کہ وہ خود آئین کی خلاف ورزی نہ کریں آئین کو نہ پھلانگیں نہتے لوگوں پر تشدد کا کوئی جواز نہیں بنتا سندھ پولیس نے بلوچ یکجہتی کمیٹی کی خواتین کے خلاف جو کاروائی کی ہے اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے انہوں نے کہا کہ بلوچستان تمام قدرتی وسائل و ذخائر سے مالامال صوبہ ہے یہاں نہ تیل، گیس، لوہے، تانبے اور سونے چاندی کی کمی ہے ہمارے پہاڑ اس قسم کے ذخائر سے مالامال ہیں لیکن بدقسمتی سے پسماندہ بھی ہمارا صوبہ ہے بلوچستان کا تقریبا 600کلومیٹر کا ساحل ہے جہاں سے ماہانہ اربوں روپے کی مچھلی شکار کی جاتی ہے بڑے بڑے ٹالر کراچی سے چلتے ہیں گوادر جیوانی تک جو ہمارے صوبے اور حصے کا سمندر ہے وہاں سے غیرقانونی شکار کیا جاتا ہے کس قانون اور آئین کے تحت یہ چیزیں ہورہی ہیں یقینا جبرا یہ سب کچھ ہو رہا ہے ہمارے جزائر پر قبضہ کیا جارہا ہے بلوچستان کے نوجوان بیروزگاری کا شکار ہیں انکے بیروزگاری کو ختم کرنے کا تو انکے پاس نہ ایجنڈا ہے نہ کوئی فارمولا، بلکہ بیروزگاری میں مزید اضافہ کیا جارہا ہے ہمارے نوجوان غربت کی وجہ سے اپنی تعلیم جاری نہیں رکھ سکتے اسکالرشپ جو غریب طلبہ کیلیے ہے وہ بھی نہ ہونے کے برابر ہے دوسرے صوبوں سے اسکالرشپ کے ذریعے باہر کے ممالک طلبہ کو بھیجا جاتا ہے لیکن بلوچستان سے آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں بھیجے جاتے ملک کی آزادی سے لیکر آج تک بلوچستان اور اسکی عوام سے بے در پے زیادتیاں کی جارہی ہیں نوبت اب یہاں تک پہنچی ہے کہ بلوچستان میں لوگ اب آزادی کا نعرہ لگا رہے ہیں اسکے کیا عوامل ہیں کسی نے اسکا تجزیہ اور ادراک کیا ہے یہ میرا ریاست کیلیے ایک بہت بڑا سوال ہے کہ بلوچستان کے لوگ اس حد تک کیوں پہنچے انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا کے لوگوں کی بھی اب یہ سوچ ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ چل سکتے ہیں یا نہیں یہ لوگ اس حد تک کیوں پہنچے ریاست کو اس حوالے سے سوچنا اور اسے اپنا رویہ تبدیل کرنا چاہیئے جمعیت علما اسلام یہ سمجھتی ہے کہ جو مسائل ہیں چاہے وہ خیبرپختونخوا، سندھ یا بلوچستان سے وابستہ ہوں انکے لیے مذاکرات اور مفاہمت کا راستہ ایک بہترین حل ہ ڈنڈے اور طاقت کے زور پر مسائل حل ہوتے تو مشرقی پاکستان ہم سے علیحدہ نہ ہوتا انہوں نے کہا کہ جب اٹھارویں ترمیم ہوئی
اس وقت بھی میں نے کہا تھا کہ یہ ایک اشک شوئی ہے لیکن پھر بھی نہ ہونے سے بہتر ہے لیکن اب اس پر عملدرآمد نہیں ہے پانی مسئلہ ہے سندھ اپنے حصے کے پانی کیلیے اور بلوچستان اپنے حصے کے پانی کیلیے رو رہا ہے بلوچستان کو اپنے حصے کا پانی نہیں مل رہا وہ پنجاب یا سندھ لے جارہا ہے کچھی کینال جو بلوچستان کیلیے ضروری ہے لیکن اس پر کام نہیں ہو رہا ڈیرہ بگٹی تک اسکا ایک حصہ پہنچ گیا ہے اور آگے لے جانے کیلیے بجٹ میں اسکے لیے پیسے نہیں ہیں
بلوچستان کے ساتھ اس قسم کا رویہ رکھنے سے بلوچستان کے عوام کیا سوچیں گے کہ نصف صدی گزر گئی کچھی کینال سبی تک نہیں پہنچ سکی دو نسلیں جوان ہوگئی تیسری نسل ہم پتہ نہیں دیکھ سکیں یا نہیں کہ کچھی کینال سے لوگ استفادہ حاصل کرسکیں گے یا نہیں پانی کی چوری اور صوبوں کے حقوق کو پامال کرنا یہ رویہ ملک و قوم کیلیے نقصان دہ ہے جو قومی یکجہتی کیلیے ہمیں کام کرنا تھا وہ پارہ پارہ ہو رہا ہے
انہوں نے کہا کہ اگر سندھ کے پانی دریائے سندھ سے اگر کینال نکالے جائیں گے تو سندھ بھی مشتعل ہو جائے گا بلوچستان پہلے سے سراپا احتجاج ہے کچھی کینال رکا ہوا ہے پٹ فیڈر اور کیر تھر کینال میں وہ پانی نہیں آرہا جو ہمارا حق ہے تو ایسے حالات میں ریاست کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ صوبوں کو اور اسکے عوام کو مطمئن کرے انکے حقوق دے بلوچستان پیکیج کے نام سے ماضی میں بڑی خوشخبری ملی تھی آج وہی لوگ حکمران ہیں اسکا کوئی فائدہ کسی نے دیکھا یا کسی کو کوئی فائدہ ملا
انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی بھی مفادات کے مجموعے کا ایک ٹولہ ہے
صرف اقتدار اسکی منزل ہے ورنہ بلوچستان کو چھوڑیں سندھ میں جو زیادتیاں ہورہی ہیں ان زیادتیوں پر بھی وہ چشم پوشی کررہی ہے بلوچ یکجہتی کمیٹی کی خواتین کے بے حرمتی اور گرفتاریوں پر پیپلز پارٹی کی حکومت کو سوچنا چاہیئے لیکن پیپلز پارٹی اقتدار کی حوس میں مگن ہے وہ ان زیادتیوں کو نظر انداز کررہی ہے
اس موقع پر جمعیت علما اسلام لسبیلہ کے سیکرٹری جنرل مولانا عبدالحمید عارف، سیکرٹری اطلاعات حافظ حسین احمد مدنی، جمعیت علما اسلام کے رہنما و میونسپل کمیٹی اوتھل کے کونسلر جیرام داس عرف جیرو، جیٹھا مل لاسی، رام لعل لاسی اور دیگر موجود تھے۔
Leave a Reply