|

وقتِ اشاعت :   4 hours پہلے

حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان ہونے والے مذاکرات بلآخر بے نتیجہ ہی ثابت ہوگئے ،ایک مکمل سیاسی ماحول مذاکرات کے دوران دیکھنے کو بالکل بھی نہیں ملا،ایوان کے اندر اور باہر حکومت اور پی ٹی آئی قائدین کے درمیان سیاسی تلخیاں برقرار ر ہیں گوکہ چند پی ٹی آئی ارکان نے سیاسی بات چیت کو مثبت انداز میں آگے بڑھانے کی بات کی تھی مگر پی ٹی آئی اپنے دو مطالبات پر اول روز سے ڈٹی رہی کہ 9 مئی اور 26 نومبر پر جوڈیشل کمیشن بنائی جائے جبکہ اپنی لیڈر شپ اور کارکنان کی رہائی کو ایگزیکٹیو آرڈر کے ذریعے ختم کرنے پر زور دے رہی تھی جس پر حکومتی نمائندگان کی جانب سے واضح انکار کرتے ہوئے کہا گیا کہ یہ عدالتی معاملات ہیں جن کا سامنا قانونی طریقے سے ہی کرنا ہوگا۔
بہرحال اب حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات مکمل ڈیڈلاک کی طرف چلے گئے ہیں۔بانی پی ٹی آئی نے حکومت کے ساتھ جاری مذاکرات ختم کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔
چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ بانی پی ٹی آئی نے جیل میں مذاکرات ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔
بیرسٹر گوہر کا کہنا تھا کہ حکومت نے 7 روز میں کمیشن بنانا تھا لیکن اب تک حکومت نے 9 مئی اور 26 نومبر پر جوڈیشل کمیشن تشکیل نہیں دیا اس لیے مذاکرات ختم کرنے کا اعلان کر رہے ہیں۔
دوسری جانب حکومتی مذاکراتی ٹیم کے ترجمان سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ پی ٹی آئی کے مطالبات پر جوڈیشل کمیشن بننے کا فیصلہ ابھی تک نہیں ہوا۔
انہوںنے پی ٹی آئی کے ساتھ اگلی بیٹھک 28 جنوری کو لگنے کی امید کا اظہار کیا ہے تاہم انہوں نے جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کے حوالے سے اب تک کسی فیصلے پر نہ پہنچنے کی بھی تصدیق کی ہے۔
جبکہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب کا کہنا ہے کہ جوڈیشل کمیشن نہ بنا تو اگلے مذاکرات میں نہیں بیٹھیں گے، بانی پی ٹی آئی کی ہدایات واضح ہیں، جوڈیشل کمیشن نہ بنا تو مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں۔
وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے بھی جوڈیشل کمیشن کے متعلق واضح موقف اختیار کرتے ہوئے کہا کہ جوڈیشل کمیشن بنا تو صرف 9 مئی اور 26 نومبر نہیں، 35 پنکچر، فارم 47 اور دھرنے بھی اس میں آجائیں گے۔
واضح رہے کہ حکومت اور اپوزیشن جماعت پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات کے 3 دور ہوچکے ہیں اورگزشتہ بیٹھک میں پی ٹی آئی نے اپنے مطالبات تحریری صورت میں دئیے تھے۔
بہرحالمذاکرات کے بارآورہونے کی کسی کو امید نہیں تھی کیونکہ سیاسی ماحول سے یہ بالکل واضح تھا کہ جو رویہ مذاکراتی عمل کے دوران اپنایاجارہا ہے وہ صرف وقت گزاری کے لیے ہے۔
پھرجس طرح پیشگی مطالبات کے تسلیم کرنے پر اپوزیشن زور دے رہی تھی حکومت اس معاملے سے مذاکرات کو فاصلے پر رکھ رہی تھی اور تحریری طور پر مطالبات سامنے رکھ کر مذاکرات کی بات کررہی تھی۔
یعنی حکومت اور پی ٹی آئی والے بالکل ذہنی طور پرتیار تھے کہ یہ مذاکرات نتیجہ خیز ثابت نہیں ہونگے۔
اسی مذاکراتی عمل کے دوران پی ٹی آئی چیئرمین بیرسٹر گوہر اور وزیراعلیٰ کے پی علی امین گنڈا پور کی سربراہ پاک فوج جنرل عاصم منیر سے ملاقات بھی ہوئی تھی جس پر مختلف چہ مگوئیاں کی گئیں کہ بیک ڈور چینل کے ذریعے ڈیل ہورہی ہے مگر 190 ملین پاؤنڈ کیس میں بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کو سزا سے یہ تاثر زائل ہوگیا کہ کسی قسم کا ریلیف بیک ڈور سے دینے کا امکان ہے۔
اب آگے سیاسی حالات کا کچھ نہیں کہا جاسکتا مگر مذاکراتی عمل ختم ہونے سے ملک میں سیاسی استحکام پر اثرات ضرور پڑینگے جن سے معیشت بھی متاثر ہوسکتی ہے۔
ملک کی موجودہ صورتحال مزید سیاسی کشیدگی کی متحمل نہیں ہوسکتی ،بدامنی کے بھی چیلنجز موجود ہیں جن سے سیاسی یکجہتی سے ہی نمٹا جاسکتا ہے اس کیلئے وسیع سوچ کے ساتھ مذاکرات کی طرف آنے کی ضرورت ہے اس کے علاوہ کوئی اور راستہ موجود نہیں ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *