خضدار : بلوچستان نیشنل پارٹی کے سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے ممبر سابق ایم این اے میر رف مینگل نے حالیہ دنوں گوادر میں کتاب بیچنیو خریدنے پر مقدمہ درج کرکے درجنوں تعلیم دوست افراد کوگرفتارکرنا انتہائی جہالت وعلم دشمنی کوظاہرکرتی ہے
اور ساتھ اعلی تعلیمی اداروں ویونیورسٹیوں میں سیاسی درس تدریس نقل وعمل پرپابندی لگانا تعجب خیز ہے لگتا ہے ریاست نیایسے سمت کاتعین کیاہے جہاں جاگیردارانہ اجارادارانہ پالیسی اپنا کر مغلیہ طرز حکمرانی کا سکہ جمانا چاہتاہے
جدیدسائنسی سیاسی علمی ومعلوماتی دنیا میں پرانااور فرسودہ طرز حکمرانی کی کشتی کوسفر کی ڈگر پر چلانا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے بلوچستان کو غیر جمہوری وغیر سیاسی ہتکھنڈوں کے ذریعے تاراج کرنیکی طفلانہ عمل مزیدتشنگی پیداکررہی ہے دنیا کے ساتھ ایک مہزب باعلم سیاسی سائنسی حالات سے باخبر علم سے لیس ہی کوئی کردار ادا کرسکتاہے
اگر کتاب قلم سیاسی قدغن سے کوئی معاشرہ ترقی کرسکتاہے تووہ آرام بسترپرایک خواب تصور کی تعبیر ہوگی جومزید الجھن انتشار بیراہ روی اور بغیرکسی سمت کیتاریک راہوں کا سفر ہوگا بلوچستان میں جاری آپریشن میں مسخ شدہ لاشوں حبس بے جا جبری گمشدگی مقدمات وگرفتاریوں کے بعد کتاب وقلم کی گرفتاری مقدمہ اور یونیورسٹیوں میں سیاسیات اور سیاسی عمل یعنی بحث ومباحثہ قدغن لگانا اکیسویں صدی کا انوکھا کارنامہ ہے جو موجودہ حکومت سرانجام دے چکی ہے۔
جب تعلیم کتاب سے استفادہ نہیں ہونگے تو سیاسی نظام مفلوج ہوکر ایک استمل خانہ بن کے رہ جائیگا موجودہ جدیدترین سائنسی ترقی علم تعلیم ہنر وسائنسی علوم وسیاسی آگاہی کے بغیر ترقی اورجدت ٹیکنالوجی سے آشنائی ممکن نہیں۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ بلوچستان میں جاری غیرجمہوری وغیرسیاسی تجربات کوختم کیاجائے اور بلوچستان کی سیاسی مسئلے کوجمہوری انداز میں حل کیاجائے کیونکہ کتاب قلم اور یونیورسٹی علم کاذریعہ جس پر پابندی لگاکر جدیدعلوم تک رسائی کو روکا نہیں جاسکتا اورسوشل میڈیاکے ذریعے روبطوں کاجوجال پھیل چکا انھیں تشدد گرفتاری مقدمات وپابندیوں ختم نہیں کیاکاسکتا
اس طرح کے طفلانہ طریقوں سے جگ ہنسائی کاجو سما بندھ چکاہے جو حکمرانوں کی اہلیت وقابلیت کیلئے کافی ہے۔
Leave a Reply