|

وقتِ اشاعت :   5 hours پہلے

کوئٹہ :  چیئرپرسن قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق سینیٹر ثمینہ ممتاز زہری نے کہا ہے کہ ہمارا معاشرہ مسلسل اور تیزی سے زوال پذیر ہو رہا ہے۔

ہمارے معاشرے میں بہت سے ایسے عوامل تیزی سے پروان چڑھ رہے ہیں جو ہمارے معاشرے کو تیزی سے تنزلی کی طرف لے جارہے ہیں ۔ہمارے معاشرے کے بگاڑ میں سب سے خطرناک عمل جو کہ ہمارے معاشرے کو آگ کی طرح کھاتا جارہا ہے وہ ہے عدم برداشت اور انتہا پسندی ۔

اس ناسور نے کتنے ہی ہنستے بستے گھر اجاڑ دیئے ہیں ۔ آئے روز عدم برداشت اور انتہا پسندی کے واقعات ایسے متواتر رونما ہو رہے ہیں کہ دل خون کے آنسو روتا ہے لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس میں خاطر خواہ کمی اور روک تھام کے لئے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں اٹھائے جارہے ہیں۔

سینیٹر ثمینہ ممتاز زہری نے کہا کہ عدم برداشت کے واقعات کبھی کبھار دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں بھی رونما ہوتے ہی لیکن ان کی تعداد بہت کم ہے ۔

ہمارے معاشرے میں اپنی کہی ہوئی بات سے اختلاف کرنے والے کو دشمن سمجھ لیا جاتا ہے اور اس سے ایسی دشمنی لگا لی جاتی ہے کہ مارنے مرنے پر تل جاتے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ کہ ہم معاشرتی طور اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ ہمار ی بات سے اختلاف رائے رکھنے والے کی بات پر ٹھنڈے دماغ سے سوچنے کی بجائے ہم اس اختلاف کو اپنی ذات کی توہین محسوس کرتے ہوئے اس توہین کا بدلہ لینے کے بارے میں سوچنا شروع کر دیتے ہیں اور یہی سوچ اس انتہاپسندی کی بنیاد بنتی ہے جو معاشرے تباہ کر دیتی ہے۔

لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ بند دماغوں پر علم کو خواہ وہ دینی ہو یا دنیاوی بوجھ کی طرح لادنے کی بجائے انھیں کھولا جائے اور ان کی تربیت اس طرح سے کی جائے کہ انھیں اس بات کا احساس ہو کہ ان کے ارگرد بسنے والے لوگ ان سے مختلف سوچ اور رائے رکھتے ہیں اور وہ یہ رائے رکھنے میں حق بجانب ہیں اور اس رائے کا احترام ہم سب کا دینی اور معاشرتی فرض ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ سیاست دان ہوں،

اساتذہ ہوں، وکلاہوں، صحافی یا کوئی عام آدمی، ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر کوئی عدم برداشت کے خاتمے میں اپنا کردار ادا کرے ۔

سینیٹر ثمینہ ممتاز زہری نے کہا کہ اگر ہم نے اپنے آنے والی نسلوں کو عدم برداشت اور انتہا پسندی جیسے ناسور سے بچانا ہے تو ہمیں درسی نصاب میں بھی اس موضوع پر مشتمل مضامین شامل کرنے ہوں گے ۔

ہمیں اپنے بچوں کو اس ناسور سے بچانا ہو گا ، ان کی تربیت کرنی ہو گی ۔

اپنی بات سے اختلاف رائے رکھنے والے کا احترام اور دوسرے کی بات کو تحمل و برداشت سے سننے کا حوصلہ رکھنا اور بڑھانا ہوگا۔

ا سکول سے لے کر یونیورسٹی اور مدرسوں سے لے کر مسجدوں تک غرض ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگوں اور اداروں سب کو اپنا اپنا مثبت اور بھرپور کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ مستقبل میں ہماری آنے والی نسلوں کو پیار و محبت ، بھائی چارے اور امن و آشتی سے مزین خوبصورت معاشرہ میسر آ سکے۔

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *