|

وقتِ اشاعت :   19 hours پہلے

ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام کی بات تمام سیاسی جماعتیں کررہی ہیں مگر ایک پیج پر حکومت اور اپوزیشن دونوں دکھائی نہیں دے ر ہیں۔
گزشتہ دنوں بانی پی ٹی آئی نے حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے ساتھ مذاکرات ختم کرنے کا باقاعدہ اعلان کیا اور پی ٹی آئی بضد ہے کہ ان کے مطالبات تسلیم کئے جائیں جس میں جوڈیشل کمیشن کی تشکیل بھی شامل ہے ۔
مذاکرات کے تین راؤنڈ کے بعد کس طرح فوری جوڈیشل کمیشن بنائی جاسکتی ہے ،مذاکراتی عمل ذرا طویل ہوتا ہے، فریقین کی جانب سے چند ایسے نکات پر پہلے اتفاق ہونا چاہئے کہ ملک میں سیاسی ماحول کو بہتر بنایا جائے، معاشی بحران اور بدامنی کے چیلنجز سے کیسے نمٹا جائے، ملک خاص کر عوام کو درپیش مشکلات سے کیسے نکالا جائے۔
چیدہ چیدہ نکات پر اتفاق رائے سے ہی ڈائیلاگ آگے بڑھ سکتے ہیں جس کے بعد پی ٹی آئی اپنے مطالبات کو سامنے رکھے۔
یہ نہیں ہوسکتا کہ مذاکرات کا پہلا اور حتمی ایجنڈا ہی اپوزیشن کی منشاء کے مطابق ہو اور اسے تسلیم کرکے فوری عمل کرایا جائے، یہ محض پھر رسمی دکھاوا ہی ہے کہ ہم مذاکرات کیلئے تیار ہیں مگر حکومت ہمارے مطالبات تسلیم نہیں کررہی۔
کیا جو سانحات رونماء ہوئے ،املاک کو نقصان پہنچایا گیا، پر تشدد واقعات مسلسل ہوتے رہے ،اسلام آباد پر لشکر کشی کی جاتی رہی ،تمام تر قوانین کو توڑا گیا، بانی پی ٹی آئی اور دیگر پرکرپشن کے کیسزالگ ہیں ،ان سب کیسز سے بانی پی ٹی آئی، بشریٰ بی بی، پی ٹی آئی رہنماؤں کو فوری ریلیف دیا جائے پھر ملک میں قانون کی حکمرانی کہاں کھڑی رہے گی ،پھر عام لوگوں کو چھوٹے کیسز میں طویل سماعتیں اور سزائیں ملتی ہیں وہ بھی ملک کے شہری ہیں ان کو بھی ریلیف دیا جائے یا پھر دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ملزمان کو بغیر کسی ٹرائل کے رہا کردیا جائے؟ ریاستی رٹ کیسے قائم ہوگی؟ قانون کا اطلاق سب پر یکساں ہونا چاہئے جنگل کا قانون تو نہیں چلے گا، ایسی غلط روایت کسی جمہوری اور مہذب معاشرے میں قابل قبول نہیں ہوتی۔
پی ٹی آئی کیسز کا سامنا کرے، کمیشن تب بنائی جائے گی جب انکوائری کا عمل آگے بڑھتا رہے گا، یہ نہیں ہوسکتا ایک دن میں کمیشن تشکیل دی جائے اور پھر چند روز میں کمیشن رہائی کے احکامات جاری کرے جو پی ٹی آئی کی خواہش ہے۔
بہرحال مذاکرات کیلئے سنجیدگی دکھائی نہیں دے رہی ،بانی پی ٹی آئی کا مذاکرات جاری رکھنے سے لے کر ختم کرنے کے تک کے اعلان تک ، سب محض سیاسی بیان تھے اگر واقعی سنجیدگی کے ساتھ مذاکرات کا حصہ بنا جاتا تو صرف اپنے ہی نکات تک پی ٹی آئی محدود نہ ہوتی ،حکومت کے پاس پی ٹی آئی کے متعلق لمبی فہرست موجود ہے کہ چند برسوں کے دوران کس طرح کی انتشاری سیاست کو پروان چڑھایا گیا اور کس قدر ملک کو نقصانات پہنچانے کی کوشش کی گئی ،آئی ایم ایف کو خط لکھنے سے لے کر بیرونی مدد یعنی براہ راست مداخلت کی مہم چلائی گئی جو بڑے چارج شیٹ ہیں لہذا مذاکرات کے بہانے فوری ریلیف لینا مضحکہ خیز ہے اور یہ حکومت کسی صورت قبول نہیں کرے گی۔
اب اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے مذاکراتی کمیٹی کا اجلاس 28 جنوری کو دوپہر پونے بارہ بجے طلب کیا ہے۔
پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر کا کہنا ہے کہ کمیشن نہیں بنے گا تو ہم حکومت کے ساتھ صرف فوٹوسیشن کے لیے تو نہیں بیٹھ سکتے۔
کتنے تعجب کی بات ہے کہ اب تک فوٹو سیشن ہی پی ٹی آئی کرتی آئی ہے شاید انہیںکسی اور در سے کوئی امیدہے مگر اسٹیبلشمنٹ اب پی ٹی آئی سے کوئی خفیہ یا براہ راست بات کرنا نہیں چاہتی ۔
لہذااب ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف بھی پی ٹی آئی دیکھے گی کیونکہ ماضی میں بھی بیرونی مداخلت اور مدد کے حربے آزمائے گئے ہیں مگر اس کا کوئی اثر نہیں پڑا۔
لہذا اگرپی ٹی آئی کوملک کے مفاد میں سیاست کرنی ہے تو اسے اپنے سیاسی رویے میں تبدیلی لانی ہوگی۔

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *