|

وقتِ اشاعت :   19 hours پہلے

ملک کا سب سے بڑا اور کم آبادی والا صوبہ بلوچستان اپنے محلِ وقوع، جغرافیائی اہمیت، قدرتی و معدنی وسائل کے حوالے سے ایک الگ مقام رکھتا ہے۔

قدرتی و معدنی وسائل رکھنے کے باوجود بلوچستان کے لوگ غربت کی لکیرسے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور 770 کلومیٹر طویل ساحلی پٹی بھی لوگوں کی زندگی میں کوئی خاص معاشی تبدیلی کاموجب نہیں بن رہی۔

سی پیک جو خطے کیلئے ایک گیم چینجر منصوبہ ہے مگر اب تک ان منصوبوں سے بھی بلوچستان کو کوئی خاص فائدہ نہیں پہنچا ہے۔

بلوچستان میں کوئلہ، تانبا، سونا، خام لوہا اور ماربل (اونیکس) ماربل (آرڈینری) کرومائیٹ، بیرائیٹ، لائم اسٹون، گرینائیٹ سمیت دیگر قیمتی معدنیات کے علاوہ تیل اور گیس کے بھی وسیع ذخائر موجود ہیں۔

سوئی گیس سے ملک کی بڑی صنعتیں اور دیگر صوبے مستفید ہورہے ہیں مگر بلوچستان کے بعض اضلاع آج بھی اس قیمتی نعمت سے محروم ہیں۔

اسی طرح بلوچستان میں ریکوڈک، سیندک جیسے اہم منصوبوں سے بھی منافع کمایا جارہا ہے مگر بلوچستان کو اس کا حق نہیں مل رہا۔

بہرحال بنیادی بات یہ ہے کہ بلوچستان کو ترقی دینے اور امیر ترین صوبہ بنانے کیلئے اس کے وسائل پر اس کو مکمل اختیار دینا ہوگا۔

کمپنیاں اور وفاق منافع و محاصل لیتے ہیں مگر بلوچستان کو مالی منافع اور ترقیاتی منصوبوں میں خاص ترجیح نہیں دی جاتی جس کی وجہ سے آج تک خطہ محروم ہے۔

ہر نئی وفاقی حکومت بلوچستان میں ترقی اور معاشی تبدیلی لانے کا وعدہ کرتی ہے مگر اسے عملی جامہ نہیں پہنایا جاتا ، وفاق اور بلوچستان کے درمیان ایک مستقل خلیج اسی بنیاد پر ہے۔

آج پیپلز پارٹی سندھ میں پانی سمیت دیگر منصوبوں پر وفاقی حکومت کے رویہ پر سخت گیر رویہ اپنا رہی ہے، گزشتہ دنوں بلاول بھٹو زرداری کا کراچی کی تاجر برادری سے ملاقات کے دوران کہنا تھا کہ اسلام آباد کے بیوروکریٹس، وزرا اور وزیر اعظم تک کہتے ہیں کہ لوڈ شیڈنگ ختم کر دی لیکن ہمارا تو وفاق پر اعتماد ہی ختم ہوچکا ہے جبکہ سندھ سے نہریں نکالنے کے معاملے پر بھی شکوہ کیا ہے۔

اس سے قبل بھی بلاول بھٹو زرداری نے وفاق کو نشانے پر لیتے ہوئے کہا تھا کہ اہم قانون سازی پر ہمیں اعتماد میں نہیں لیا جاتا حالانکہ سندھ سی پیک سمیت دیگر وفاقی منصوبوں سے بہت زیادہ مستفید ہورہا ہے مگر بلوچستان تو اپنے جاری میگا منصوبوں کے محاصل سے بھی محروم ہے۔

اب موجودہ وفاقی حکومت کی جانب سے بلوچستان کو ملک کا سب سے امیر صوبہ بنانے کی بات کی گئی ہے۔

گذشتہ دنوں وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے پیش گوئی کی تھی کہ اگلے 10 سے 12 سال میں بلوچستان پاکستان کا سب سے امیر صوبہ ہوگا۔

وفاقی وزیر احسن اقبال نے منگل کو پاکستان ہائی کمیشن لندن کا دورہ کیا۔

جہاں انہیں برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمیشن کے پیشہ ورانہ امور پر بریفنگ دی گئی۔

اس موقع پر احسن اقبال نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں اربوں ڈالر کے ذخائر ہیں۔

بلوچستان میں تانبے کے ذخائر نکالنے کے لیے کام ہو رہا ہے۔

چینی کمپنیاں بلوچستان سے ذخائر نکالنے میں دلچسپی لے رہی ہیں، سعودی عرب نے بھی پاکستان کے قدرتی ذخائر پر سرمایہ کاری میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔

احسن اقبال نے کہاکہ چاہتے ہیں کہ بلوچستان سے نکلنے والے ذخائر کا خام مال باہر نہ جائے بلکہ وہیں پرکام ہو۔

یہ پہلی بار نہیں کہ بلوچستان کو ملک کا امیر ترین اور ترقی یافتہ خطہ بنانے کی بات وفاق کی جانب سے کی جارہی ہے، ماضی میں جتنی بھی حکومتیں آئیں ان سب نے بلوچستان کیلئے اہم منصوبوں کے اعلانات کیے ،معدنی، سمندری وسائل پر سب سے پہلے بلوچستان کو حق دینے کی بات کی مگر یہ محض دعوے ثابت ہوئے۔

اگر واقعی بلوچستان کو امیر ترین صوبہ بنانا ہے تو عملی طور پر اس کیلئے اقدامات اٹھانے ہوں گے۔

بلوچستان حکومت سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کی باہمی مشاورت کے ساتھ بلوچستان میں ترقیاتی منصوبوں کے جال بچھائے جائیں نیز میگا منصوبوں اور سوئی گیس سے ملنے والا منافع بلوچستان کو دیا جائے، انسانی وسائل پر رقم خرچ کی جائے، بلوچستان کو بڑے ترقیاتی منصوبے دیئے جائیں، پرائیویٹ سیکٹر پر سرمایہ کاری کی جائے۔

اعلانات نہیں بلکہ عملی قدامات کئے جائیں تاکہ حقیقی معنوں میں زمین پر تبدیلی دکھائی دے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *