|

وقتِ اشاعت :   6 hours پہلے

کراچی:کراچی پریس کلب میں ہونے والے سیمینار نے پیکا کو کالا قانون قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا،کراچی پریس کلب اس سلسلے میں تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بعد باقاعدہ تحریک کا آغاز کرے گا جو اس قانون کے واپس لیے جانے تک جاری رہے گی۔

جمعرات کو کراچی پریس کلب کے تحت ایک بامعنی گفتگو جس کا عنوان ”سچائی کا دفاع، آزادی کا تحفظ”پییکا ترمیمی بل 2025 کے پس منظر میں میڈیا کا مستقبل کی نشست سے خطاب کرتے ہوئے کراچی پریس کلب،سیاسی رہنمائوں،سول سوسائٹی اور صحافتی تنظیموں نے الیکٹرانک کرائمز کی روک تھام(پیکا)ایکٹ کو کالا قانون قرار دیتے ہوئے کہا کہ پیکا ایکٹ آزادی اظہار رائے پر قدعن ئے،وفاقی حکومت سے اس ایکٹ کو واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہیںِ،پیکا ایکٹ کے خلاف ہر فورم احتجاج سمیت قانونی و تمام آپشنز کا استعمال مشترکہ مشاورت سے کیا جائے گا۔

اگر حکومت کو میڈیا کے حوالے سے قوانین بنانے ہیں تو وہ ڈائیلاگ کا اہتمام کرے،مشترکہ تجاویز کی روشنی میں پارلیمان سے قانون پاس کرائے،ہم سمجھتے ہیں کہ میڈیا کو بھی مادر پدر آزادی نہیں ہوناچاہیے بلکہ اس میں ایک ایڈیٹوریل میکینزم ہونا چاہیے،توقع کرتے ہیں حکومت پیکا ایکٹ میں ترامیم کے لیے صحافتی تنظیموں سے رابطے کرے گی۔

نشست سے پیپلز پارٹی کے رہنما رضا ربانی،کراچی پریس کلب کے صدر فاضل جمیلی،سیکرٹری سہیل افضل خان،خازن عمران ایوب،سینئرصحافی ظفرعباس،سینئر صحافی اظہر عباس،مظہرعباس،بیرسٹر صلاح الدین،سول سوسائٹی کے ڈاکٹر توصیف احمد،نائب صدر پریس کلب ارشاد کھوکرسابق صدر پریس کلب سعید سربازی،ڈاکٹرعبدلجبار خٹک ،فرحان ملک ،پی ایف یوجے دستور کے سیکرٹری اے ایچ خانزادہ، سابق صدر پریس کلب امیتازخان فاران ،سابق سیکرٹری مقصود یوسفی،کے یوجے کے صدر اعجاز احمد، سمیت دیگر نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

سابق چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی نے پیکا ایکٹ کو کالا قانون قرار دیتے ہوئے کہاکہ کنٹرولڈ میڈیا اور سوشل میڈیا پر مزید قدغن لگے گی مزاحمت کا کلچر ختم ہوچکا ہے اب مفاہمت کی جاتی ہے۔

میاں رضا ربانی نے کہاکہ جب بھی پارلیمان کے اندر کوئی بل پیش کیا جاتا ہے اس پر بحث کرنے کے بجائے رسمی طور پر بل کو اسٹینڈنگ کمیٹی کو بھیج دیا جاتا ہے۔

دونوں پارلیمان پر بحث کے بغیر ہی منظور کرلیا جاتا ہے۔

اس عمل کا زمہ دار صرف سیاست دان ہی نہیں سوسائٹی بھی ہے کیوں کہ ہمارے ہاں مزاحمت کا کلچر ختم ہوچکا ہے۔

قانون سازی کے حوالے سے پارلیمان کی وقعت ختم ہوچکی ہے۔میں صحافیوں کے ساتھ کھڑا ہوں.جدوجہد کے کلچر کو فروغ دینا ہوگا۔

صدر پریس کلب فاضل جمیلی نے کہا کہ ن لیگ چاہتی تھی کہ پیکا قانون بنے لیکن اس میں پیپلزپارٹی بھی شامل ہوگئی۔صدر مملکت نے پیکا ایکٹ کو پاس کیا اب یہ قانون بن گیا ہے۔

یہ ایکٹ آزادی اظہار رائے کے منافی ہے۔سہیل افضل خان نے کہا کہ پیکا بل ہماری توقع سے پہلے ہی پاس ہوگیا ہے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ حکومتیں قوانین کے لیے الفاظ اچھے استعمال کرتے ہیںلیکن الفاظ کی آڑ میں آوازوں پر قدغن لگ گئی ہے۔

سینئرصحافی اظہرعباس نے اس موقع پر کہا کہ پیکا ایکٹ بنادیا گیا ہے دوچیزے ہیں اس کا عمل ورکنگ جنرنلسٹ پر ہوگا،معاشرے پراس پرکا اثر ہوگا،حکومت نے اس قانون پر ہم سے بات چیت نہیں کی۔

سابق حکومت نے ہمیں اس قانون کے حوالے سے ورکنگ پیپر دیا تھااس پر ہم سے بات ہوئی تھی۔

اس بار تو ایساہوا ہی نہیں۔

انہوں نے نہ کوئی مسودہ دیا۔

دوگھنٹے پہلے ہم سے رابطہ کیا ہم اپنی تجویزے دی تو اس سے پہلے ہی قومی اسمبلی سے قانون پاس کردیاگیا۔

اس ایکٹ کے بعد کوئی اختلاف رائے نہیں کرسکتاہے۔

اس کو بہت مشکلات کا سامناکرناپڑے گا۔ایسے قانون کو سول سوسائٹی اور اسٹیک ہولڈرز کی رائے سے بناناچاہیے۔

بیرسٹرصلاح الدین نے کہا کہ ہمیں کلیئر ہونا چاہیے کہ یہ ترامیم وغیرہ سیاسی جماعتیں نہیں کروارہی ہیں بلکہ کوئی اور کررہے ہیں۔

یہ پیپلزپارٹی وہ پارٹی نہیں رہی بلکہ اب ہر کوئی دیکھ رہا ہے وہ کتنی سروس دے رہی ہے۔2017 میں پہلی بار پیکا ترمیم کا مسئلہ سامنے آیا تھا۔

اس زمانے میں ایف آئی اے نے اٹھایا تھا لوگوں کو،عمران خان کے دور میں اس کو مزید مضبوط کیا گیا۔جب پی ٹی آئی کے بلے والا مسئلہ آیا تھا اس میں ایف آئی نے 100سے زائد افراد کو اٹھایا۔اس پر جے آئی ٹی بنی جس میں اداروں کے نمائندے تھے میں نے سپریم کورٹ میں اس کو چیلنج کیا تھا۔سپریم کورٹ میں میرا یہ نکتہ تھا کہ ایک انسان تو یہ قانون کا سہارا لے سکتا ہے۔

ادارہ نہیں کرسکتا ہے خفیہ اداروں کا جے آئی ٹی میں بیٹھنا صرف صحافیوں کو ڈرانے کے لیے تھا۔اب تو سائبر کرائم کا ادارہ انکوائری کرکے گرفتار کرسکتا ہے اس قانون میں ایک ادارہ قائم کیاگیا ہے جو سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو ریگولیٹ کرے گا۔اس قانون میں ان تمام اداروں یا افراد پر تنقید نہیں کرسکتے جس پر صحافی رپورٹنگ کرتے ہیں۔پیکا ایکٹ کے بعد اب کسی اختلاف رائے بھی نہیں کرسکتے ہیں۔معاشرے کی اصلاح کے لیے مثبت تنقیدضروری ہے۔ہمیں فیک نیوز کے خاتمے کے مشترکہ لائحہ عمل بنانے کی ضرورت ہے۔ہم ایکٹ کے خلاف جدوجہد میں صحافیوں کے ساتھ ہیں۔

ڈاکٹر توصیف احمد نے پیکا ایکٹ کو واپس لینےکامطالبہ کیا۔انہوں نے کہا کہ ایسے قانون سے سچ کی آواز کو دبایا نہیں جاسکتا۔فرحان ملک نے کہا کہ سوشل میڈیا کے اپنے بہت مسائل ہیںپیکا ایکٹ سے یوں لگتا ہے کہ ٹی وی کی ناکامی کے بعد سوشل میڈیا کو چپ کروایا جارہا ہے صحافیوں سے بھی گلا ہے کہ انہوں نے سوشل میڈیا کو بھی غلط طریقے سے استعمال کیا ہے۔جنہوں نے اٹھانا ہوتا ہے ان کو قانون کا کچھ لینا دینا نہیں ہوتا.اس ایکٹ میں ترامیم کی ضرورت ہے۔

مقررین نے پیکا ایکٹ کے خلاف مشترکہ جدوجہد جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *