پاکستان آئی ایم ایف کے 3 سالہ پروگرام کے تحت معاشی نظام چلارہا ہے، آئی ایم ایف اوردیگرعالمی مالیاتی اداروں سے قرض لیا گیا ہے۔
قرض کی ادائیگی کا بیشتر بوجھ عوام پر ہے تنخواہ دار طبقہ سب سے زیادہ ٹیکس دے رہا ہے جبکہ مختلف چیزوں پر ٹیکسز کا بوجھ بھی عام لوگوں پر بہت زیادہ ہے ۔
مہنگائی کی شرح میں کوئی خاص کمی عام مارکیٹوں میں نہیں آئی ہے لوگ کم آمدن میں اپنی ضروریات پوری کررہے ہیں آمدن محدود جبکہ اخراجات کا بوجھ بہت زیادہ ہے۔
امید اور توقع یہ کی جارہی تھی کہ پارلیمنٹ میں موجود عوامی نمائندگان عوام پر بوجھ کم سے کم کرنے میں اپنا کردار ادا کرینگے مگر یہاں الٹی گنگا بہہ رہی ہے کیونکہ قومی اسمبلی کے اراکین نے عوام کی بجائے اپنی تنخواہوں میں اضافہ کیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق اسپیکرایازصادق نے ایم این ایزکی تنخواہ بڑھانے کے حکم نامے پر دستخط کر دئیے جس کے بعد اب رکن قومی اسمبلی کی تنخواہ 5 لاکھ 19 ہزار روپے ہوگی۔
قومی اسمبلی کا کہنا ہے کہ ارکان اسمبلی کی تنخواہ وفاقی سیکرٹری کے پے اسکیل کو مدنظررکھ کر بڑھائی گئی ہے۔
واضح رہے کہ قومی اسمبلی کی فنانس کمیٹی نے اراکین پارلیمنٹ کی تنخواہ اور مراعات وفاقی سیکرٹری کے برابر کرنے کی منظوری چند روز پہلے دے چکی تھی۔
تنخواہوں اور مراعات کے معاملے پر پیپلز پارٹی اور ن لیگ سمیت کسی بھی جماعت نے کوئی اعتراض نہیں اٹھایا،پی ٹی آئی کے 67 اراکین نے بھی تنخواہوں میں اضافے کا تحریری مطالبہ کیا تھا۔
تمام کٹوتیوں کے بعد وفاقی سیکرٹری کی تنخواہ اور الاؤنسز 5 لاکھ 19 ہزار ماہانہ ہیں، اراکین پارلیمنٹ کو سہولیات بھی وفاقی سیکرٹری کے مساوی حاصل ہونگی۔
پارلیمانی ذرائع کا کہنا تھا کہ اراکین پارلیمنٹ نے تنخواہ 10 لاکھ روپے ماہانہ کا مطالبہ کیا تھا لیکن اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے 10 لاکھ روپے تنخواہ کی تجویز مسترد کی تھی۔
ملک کی سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے پارلیمنٹ میں موجود نمائندگان کو تمام تر مراعات ویگر ریلیف عوامی ٹیکسز سے پہلے ہی مل رہا تھا، اب تنخواہوں میں اضافے کا بوجھ بھی قومی خزانے پر پڑے گا جو مختلف ٹیکسز کے ذریعے پورا کیا جائے گا جب ملک قرض پر چل رہا ہے عوام سے قربانی کا تقاضہ کیا جاتا ہے تو کیا پارلیمان میں موجود ارکان اپنی مراعات اور تنخواہوں کیلئے قربانی نہیں دے سکتے۔
ہمارے پارلیمان میں کوئی غریب سیاست دان نہیں کہ جس کے گھر کا چولہا تنخواہ سے چل رہا ہے، بیشتر ایلیٹ کلاس سے تعلق رکھتے ہیں ،بڑے کاروبار سے منسلک ہیں کم تنخواہ پر بھی وہ بہترین زندگی گزار سکتے ہیں مگر افسوس کہ جو توقع حکومت سے کی جارہی تھی کہ عوام کو سب سے پہلے ریلیف دیا جائے گا مگرالٹا ان پر مزید معاشی بوجھ بڑھایا جا رہا ہے۔
اس عمل سے غلط تاثر جائے گا کہ پارلیمان کے ارکان کو اپنی مراعات بڑھانے کی فکرزیادہ ہے عام لوگوں کے معاشی مسائل ترجیح نہیں۔
دوسری جانب ایف بی آر اربوں روپے کی گاڑیاں خریدنے پر بضد ہے یہ تمام رقم عوام کی جیب سے جائے گی۔
خدارا عوام کے معاشی مسائل پر بھی توجہ دی جائے جائے جو موجودہ حالات میں بہت تنگ دستی میں اپنا گزر بسر کررہے ہیں ،شاہی اخراجات اور خرچوں کو کم کیا جائے ، منتخب نمائندگان اپنی تنخواہوں اور مراعات کی بجائے عوام کو ریلیف دینے کیلئے ذاتی دلچسپی لیتے ہوئے قربانی دیں نہ کہ عوام پر مزید مالی بوجھ ڈالا جائے جس سے ان کی مشکلات میں کمی کی بجائے اضافہ ہو جائے۔
Leave a Reply