|

وقتِ اشاعت :   2 hours پہلے

پیکا قانون سے حکومت اوراتحادی پاکستان پیپلز پارٹی کی امیج بری طرح متاثر ہوئی ہے۔
پیکا قانون سازی کے دوران صحافتی تنظیموں سے کوئی مشاورت نہیں کی گئی اور نہ ہی انہیں اعتماد میں لیا گیا۔
ملک بھر میں پیکا قانون کے خلاف صحافی برادری سراپا احتجاج ہے اور حکومت سے بل واپس لینے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
متنازع پیکا قانون کے خلاف ملک بھر کے صحافیوں نے احتجاج کیا اور پریس کلبز پر سیاہ پرچم بھی لہرائے۔
اس وقت حکومت کو بہت سارے چیلنجز کا سامنا ہے، بدامنی، سیاسی و معاشی معاملات سمیت دیگر اہم مسائل موجود ہیں جن پر ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے، بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں بدامنی ہے، اپوزیشن کے ساتھ معاملات کشیدہ ہیں، معاشی مسائل اپنی جگہ موجود ہیں، عوامی مسائل حل نہیں ہو رہے مگر حکومت ایسے تنازعات اٹھا رہی ہے جن سے حکومت کی ساکھ متاثر ہو رہی ہے۔
فیک نیوز کی تدارک کیلئے پہلے سے قانون اور ادارے موجود ہیں ملک کے اندر سے فیک نیوز اور منفی پروپیگنڈہ نہیں ہو رہا بلکہ باہر سے بیٹھ کر چند عناصر یہ کام کر رہے ہیں جن پر حکومتی ہاتھ نہیں پہنچ سکتی۔
ملک میں حقیقی صحافی خود فیک نیوز اور منفی پروپیگنڈہ کے خلاف ہیں، مستند خبر عوام تک پہنچانے والے صحافیوں کی مشکلات نہ بڑھائی جائیں۔
بہرحال اب حکومتی نمائندوں نے پیکا قانون سازی پر جلد بازی کا اعتراف کرتے ہوئے بات چیت پر رضا مندی ظاہر کی ہے۔
ایک بیان میں سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ وہ مانتے ہیں پیکا قانون سازی میں حکومت نے جلد بازی کی اور اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت نہیں کی۔
انہوں نے کہا کہ پیکا کا معاملہ ایسی بات نہیں جس کی اصلاح نہیں ہو سکتی، اس معاملے پر صحافیوں کی رائے لینی چاہیے تھی جو قانون مشاورت سے اچھا بن سکتا تھا وہ متنازع ہو گیا۔
وفاقی وزیراطلاعات عطا تارڑ کا کہنا ہے کہ قوانین میں بہتری کی ہمیشہ گنجائش موجود رہتی ہے، ابھی پیکا ایکٹ کے رولز بننے ہیں، اس میں مشاورت اور بات چیت کی بہت گنجائش موجود ہے۔
مشاورت میں تمام اسٹیک ہولڈرز کو ساتھ لے کر چلیں گے، بتایا جائے پیکا ایکٹ میں کونسی شِق متنازع ہے ہم اس پر بات کرنے کو تیار ہیں۔
عطا تارڑ کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پروٹیکشن اتھارٹی میں نجی شعبے سے نامزدگیاں کی جائیں گی، اتھارٹی میں پریس کلب یا صحافتی تنظیموں سے منسلک صحافیوں کو شامل کیا جائے گا جب کہ ٹربیونل میں بھی صحافیوں اور آئی ٹی پروفیشنل کو شامل کیا گیا ہے۔
بہرحال جو کام حکومت کو پہلے کرنا چاہیے تھا اب اس پر بات کر رہی ہے اگر پیکا قانون سازی کے دوران اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیا جاتا تو اس سے اچھا تاثر جاتا مگر جلد بازی کے باعث حکومت نے سیاسی نقصان اٹھایا ہے۔
بہرحال اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت پیکا قانون پر پریس کلب اور صحافتی تنظیموں کے ساتھ کب بیٹھے گی اور جو تحفظات ہیں ان کو کب دور کرے گی۔
اگر حکومت اظہار رائے کی آزادی کے ساتھ کھڑی ہے تو امید ہے کہ پیکا قانون میں موجود ایسی شقوں کو نکالا جائے گا جن پر صحافیوں کے تحفظات ہیں اور امید ہے کہ حکومت ملک کے اہم مسائل پر بھی توجہ دے گی جن میں امن و امان کی بحالی اور ایک خوشحال پاکستان کی تعمیر سر فہرست ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *