بلوچستان ملک کا سب سے پسماندہ صوبہ ہے۔
وفاق میں برسر اقتدارحکومتوں کی پالیسیاں اور صوبے میں حکومتی تسلسل نہ ہونے کے ساتھ حقیقی سیاسی جماعتوں کو دیوار سے لگانا اس کی بڑی وجوہات ہیں۔
بلوچستان کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا اعتراف سب ہی کرچکے ہیں مگر ان کا ازالہ کرنے کیلئے کبھی بھی سنجیدہ کوششیں نہیں کی گئیں جس کی وجہ سے بلوچستان میں سیاسی اورمعاشی مسائل سمیت بدامنی بھی در آئی ہے۔
بلوچستان کے مسائل کا حل نکالنے کیلئے سنجیدہ کوششوں کی ضرورت ہے طاقت مسئلے کا حل نہیں بلکہ اس سے مسائل مزید بڑھیں گے۔
بہرحال بلوچستان میں حالیہ شورش میں شدت سے سیاسی بات چیت بہت پیچھے رہ گئی ہے مگر بلوچستان کے اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ ملکر وفاق سمیت ملک کی بڑی سیاسی و مذہبی جماعتیں راستہ نکال سکتی ہیں جس کیلئے پہل ریاست کو کرنا ہوگی کیونکہ یہی ایک واحد راستہ ہے جو بلوچستان میں دیرپا امن، سیاسی استحکام کے ساتھ معاشی ترقی بر پاکرسکتی ہے۔
گزشتہ روز وزیراعظم شہباز شریف نے کوئٹہ کا ایک روزہ دورہ کیا۔
قلات حملے میں زخمیوں کی عیادت کی اور امن و امان سے متعلق تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کی ترقی کا سفر جاری و ساری ہے اور شر پسندوں کی بزدلانہ کارروائیاں بلوچستان کی ترقی کے عزم کو متزلزل نہیں کر سکتیں۔
دہشت گرد بلوچستان کے امن، ترقی اور خوشحالی کے دشمن ہیں، دہشت گرد نہیں چاہتے کہ بلوچستان کے لوگ خوشحال ہوں۔
بلوچستان کی ترقی حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے۔
وزیراعظم کا کہنا تھا بلوچستان میں صحت اور تعلیم کی معیاری سہولیات کے لیے اقدامات کر رہے ہیں، چین میں زرعی شعبے کی جدید تربیت کیلئے طلباء میں بلوچستان کا خصوصی کوٹہ رکھا گیا، بلوچستان میں زراعت کی ترقی کیلئے زرعی ٹیوب ویلز کی سولرائزیشن کی گئی، سی پیک کی تکمیل پر کام تیزی سے جاری ہے، گوادر ائیرپورٹ پر پروازوں کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے، گوادر بندرگاہ دنیا کے مابین پاکستان کو اہم رابطہ بنانے میں کلیدی کردار ادا کرے گی۔
شہباز شریف کا کہنا تھا سپہ سالار اور افواج حکومت کے ساتھ پر امن بلوچستان کیلئے دن رات کوشاں ہیں، ہمارے سپوت ماضی کی غلطیوں کا خون کا نذرانہ پیش کرکے ازالہ کر رہے ہیں۔
یہ سیاست کا نہیں قوم کو درپیش دہشت گردی کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کا وقت ہے، اپنی تمام توانائیاں جمع کرکے دہشت گردوں کا مقابلہ کرنا ہے، سکیورٹی فورسز بلوچستان کے عوام کے تحفظ کیلئے شرپسند عناصر کے سدباب کیلئے مصروف عمل ہیں، بلوچستان کے امن اور خوشحالی کے دشمنوں کے ناپاک عزائم کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔
بہرحال ریاست اپنی رٹ پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گی اس کے ساتھ ہی بلوچستان کے اہم مسائل کو حل کرنا بھی اس کی ذمہ داری ہے۔
سی پیک، میگا منصوبوں سمیت وسائل سے منصفانہ حصہ بلوچستان کو دینا ہوگاجو بلوچستان کا جائز حق ہے۔
بلوچستان کے عوام کو براہ راست ترقی کے سفر میں شامل کرنا ہوگا، روزگار سمیت بنیادی سہولیات فراہم کرنا ہوںگی۔
بدقسمتی سے دہائیاں گزر گئیں مگر بلوچستان کو اپنے ہی وسائل سے محروم رکھا گیا ہے۔
آج ملک کے دیگر صوبوں میں موٹر ویز بن رہے ہیں، ٹرانسپورٹ کے بہترین منصوبے دیئے جارہے ہیں، بڑے تعلیمی اداروں کی بنیاد رکھنے کے ساتھ ہر قسم کی سہولیات فراہم کی جارہی ہیں، صحت کے مراکز کی تعمیر سمیت ان میں مزید بہتری لائی جارہی ہے مگر بلوچستان میں بنیادی سہولیات تک کا فقدان ہے لہذا بلوچستان میں ترقی اور خوشحالی کے لیے منصوبوں کا جال بچھا کر انہیں عملی جامہ پہنایا جائے تو بہت حد تک بلوچستان کے مسائل حل ہوجائینگے جس سے محرومیوں اور پسماندگی کے خاتمے کے ساتھ ساتھ لوگ ترقی اور خوشحالی کے وژن کو سپورٹ کرینگے جس کیلئے سنجیدہ اور عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔
امید ہے کہ وفاقی حکومت بلوچستان کے مسائل کا حل نکالنے کیلئے اپنی توانائیاں صرف کریں گی اور بلوچستان حکومت کے ساتھ بھرپور تعاون کرے گی جبکہ سیاسی ڈائیلاگ کیلئے اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ گرینڈ نشست کا اہتمام کرے گی تاکہ بلوچستان میں سیاسی استحکام، امن اور خوشحالی کا خواب پورا ہوسکے۔
Leave a Reply