دالبندین: بی وائی سی کے زیر اہتمام خضدار، خاران، اور تربت سے لاپتہ ہونے والوں کی عدم بازیابی پر دالبندین پریس کلب کے سامنے مظاہرہ کیا گیا۔
تفصیلات کے مطابق، بی وائی سی دالبندین کے زیر اہتمام عربیہ چوک سے ایک ریلی نکالی گئی، جو دالبندین پریس کلب کے سامنے پہنچی۔ ریلی کے شرکاء سے لاپتہ افراد کے اہلِ خانہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں آئے روز نوجوانوں کو لاپتہ کیا جا رہا ہے۔
گزشتہ روز خاران اور تربت سے نوجوانوں کو لاپتہ کیا گیا، جبکہ خضدار سے اسماء بلوچ کو ڈیتھ اسکواڈ کے ذریعے اغوا کیا گیا۔مقررین کا مزید کہنا تھا کہ پہلے سے ہمارے ہزاروں نوجوان لاپتہ ہیں، جنہیں نہ عدالت میں پیش کیا جا رہا ہے اور نہ ہی منظرِ عام پر لایا جا رہا ہے۔
مقررین نے کہا کہ اب حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ گھروں کے اندر سے ہماری خواتین کو بھی اٹھایا جا رہا ہے، جس کی واضح مثال گزشتہ روز خضدار سے اسماء بلوچ کی جبری گمشدگی ہے۔مقررین کا کہنا تھا کہ ملک میں آئین اور قانون موجود ہیں، عدالتیں بھی قائم ہیں، مگر ریاستی جبر اور ڈیتھ اسکواڈ اتنے طاقتور ہو چکے ہیں کہ وہ نہ آئین کو مانتے ہیں، نہ قانون کو، اور نہ ہی عدالتوں کو۔
انہوں نے کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ بلوچستان کے تمام بلوچ یکجا ہو جائیں، کیونکہ اگر کہیں بھی کسی بلوچ کو لاپتہ کیا جاتا ہے تو ہمیں سب کو یک آواز ہونا ہوگا۔مقررین نے مطالبہ کیا کہ خاران سے لاپتہ مبارک علی اور حفیظ بلوچ کو فوری طور پر بازیاب کیا جائے اور اسماء بلوچ کو انصاف فراہم کیا جائے۔
پریس کلب کے سامنے ہونے والے اس مظاہرے میں حضرت علی سمیت دیگر لاپتہ افراد کے لواحقین شریک تھے، جو اپنے پیاروں کی بازیابی کا مطالبہ کر رہے تھے۔
مظاہرین میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے، جنہوں نے اپنے ہاتھوں میں لاپتہ افراد کی تصاویر اٹھا رکھی تھیں۔
Leave a Reply