|

وقتِ اشاعت :   19 hours پہلے

زراعت بلوچستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے،بلوچستان میں لہسن اور پیاز کی کاشت کے لیے ماحول انتہائی سازگار ہے جب کہ سیب، انگور ،کھجور، چیری ،آڑو اور خوبانی کی پیداوار زیادہ ہوتی ہے ۔
اسی طرح کوئٹہ شہر کے نواحی علاقوں میں پھلوں اور مختلف میوہ جات کی بڑی اقسام بھی کاشت کی جاتی ہے۔
انگور، چیری اور بادام صوبے میں قومی پیداوار کا 90 فیصد حصہ ہیں بلوچستان تقریباً 60 فیصد آڑو ،انار، خوبانی تقریباً 34 فیصد سیب اور 70 فیصد کھجور بر آمد کرتا ہے مگر گزشتہ چند برسوں کے دوران موسمیاتی تبدیلی، سیلاب کی وجہ سے کسانوں کو بڑے پیمانے پر نقصان اٹھانا پڑا ہے، کھڑی فصلیں تباہ ہوئیں، اربوں روپے مالیت کے نقصان کا ازالہ اب تک نہیں ہوسکا ہے۔
بلوچستان میں زمینداروں کو بجلی اور پانی جیسے بحران کا بدترین سامنا بھی ہے بروقت فصلیں تیار نہ ہونے سے کسانوں کو مالی نقصان ہوتا ہے ۔
پی ڈی ایم کی سابقہ اور موجودہ وفاقی حکومت نے بلوچستان میں زرعی ٹیوب ویلز کی سولرائزیشن پالیسی لائی ہے تاکہ بجلی کی طویل لوڈ شیڈنگ سے زمینداروں کا مسئلہ حل ہوسکے اور وہ اپنی زمینوں کو زیادہ بہتر اور سستے طریقے سے آباد کر سکیں ،یہ ایک امید کی کرن ہے کہ بلوچستان میں زراعت کے شعبے میں بہتری لانے کیلئے کسانوں کو ریلیف دیا جارہا ہے البتہ پانی کا مسئلہ ابھی بھی حل طلب ہے ۔
خطیمیں سب سے بڑا اورواحد معاش کاذریعہ زراعت ہے اگر ڈیمز کی تعمیر سے پانی جیسے اہم مسئلے کو حل کیا جائے تو بلوچستان پیداواری صلاحیت میں مزید اضافہ کرسکتا ہے۔
بلوچستان کے کسانوں کی مشکلات اپنی جگہ اب بھی برقرار ہیں جس کیلئے بلوچستان میں زرعی پالیسی پر توجہ دے کر دیہی لوگوں کی آمدنی اور روزگار میں اضافہ کے ساتھ زرعی انقلاب برپا کیا جاسکتا ہے مگراس کے برعکس کسانوں پر ٹیکسز کا بوجھ بڑھادیا گیا ہے جس سے ان کیلئے مزید مسائل پیدا ہونگے۔
آئی ایم ایف کے شرائط پورے کرنے کیلئے ملک کے زرعی شعبے پر ٹیکس لاگو کیا گیا ہے جسے اسمبلیوں سے منظور کروایا گیاہے۔
گزشتہ دنوں بلوچستان ٹیکس آن لینڈ اینڈ ایگریکلچرل انکم کا ترمیمی مسودہ قانون 2025 ایوان میں پیش کیا گیا۔
بل کے تحت زیادہ آمدن والے زمینداروں پر سپر ٹیکس بھی لاگو ہوگا، بل میں تجویز پیش کی گئی ہے کہ سالانہ زرعی آمدنی 6 لاکھ روپے تک ہونے پر ٹیکس لاگو نہیں ہوگا جبکہ 6 لاکھ سے 12 لاکھ تک آمدن پر 15 فیصد ٹیکس نافذ ہوگا۔
اس بل کی بلوچستان میں زیادہ مخالفت کی جارہی ہے۔
گرین کسان اتحاد بلوچستان تنظیم کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف کی ایما پر بلوچستان سمیت ملک بھر میں زرعی پیدوار پر 35 فیصد ٹیکس ظالمانہ اور زمیندار کش اقدام ہے، اسے مسترد کرتے ہیں، بلوچستان میں زراعت کو جدید اور سائنسی خطوط پر استوار کرنے کے لئے زمینداروں اور کاشکاروں کو تربیت کی فراہمی یقینی بناکر پنجاب طرز پر بلوچستان کے زمینداروں کو کسان کارڈ کا اجراء کیا جائے تاکہ زمینداروں کی مشکلات میں کمی آسکے ،کیسکو کی کارکردگی انتہائی مایوس کن اور زمیندروں کے معاشی قتل کے مترادف ہے۔
دریا ئے سندھ پر پنجاب میں مزید 6 کینالز نکالنا بلوچستان دشمن پالیسی ہے اس کی مذمت کرتے ہیں یہ زمینداروں کے حق پر ڈاکہ ڈالنے کے مترادف ہے۔
گرین بیلٹ میں کسانوں اور کاشت کاروں کو بروقت پانی ، باردانہ اور گندم کی خریداری یقینی بنانے سمیت دیگر مسائل کے حل کیلئے جدوجہد جاری رکھیں گے۔
بہرحال بلوچستان کے زمینداروں کی مشکلات کو کم کرنے اور انہیں سہولیات فراہم کرنا وفاق کی اولین ذمہ داری ہے بلوچستان کے زمینداروں کے مسائل بہت زیادہ ہیں حالیہ ٹیکسز ان کی مشکلات میں اضافے کا باعث بنیںگے۔
انہیں کسان کارڈ اجراء سمیت دیگر ذرائع سے ریلیف دینے کیلئے زرعی پالیسی بنائی جائے تاکہ بلوچستان میں زراعت کا شعبہ متاثر نہ ہو۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *