اسلام آباد: پشتونخواملی عوامی پارٹی کے چیئرمین وتحریک تحفظ آئین پاکستان کے سربرا ہ او ررکن قومی اسمبلی محمود خان اچکزئی نے پاکستان یونین آف فیڈرل جرنلٹس کے زیر اہتمام سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی تاریخ بدقسمتی سے ایسے لہروں سے بھری پڑی ہے، ہماری کوتاہیوں، بدکاریوں،بدکرداریوں، رشوت کی وجہ سے ہمارا ملک ایک بار ٹوٹ چکا ہے، نہ ہمیں کسی نے یہ بتایا کہ یہ ملک کیوں اور کیسے ٹوٹا اس کا ذمہ دار کون تھااورآئندہ کے لیے ہم توبہ کرکے ایک نئے پاکستان کی تعمیر کرینگے۔
ہم اُسی راہ پر چل رہے ہیں وہی راہ ہماری ہے۔ میں پاگل نہیں ہوں نہ یہ کہ زندگی سے مجھے محبت نہیں ہے کہ بس جہاں سے کوئی پتھر آگرے ہم اُس کے سامنے سر رکھ دیں۔
ہم نے ایک فیصلہ ایمانداری کے ساتھ کرنا ہوگا کہ اس ملک پر اُن لوگوں کی بادشاہی ہوگی جو کہنے کے حق تک کہتے ہیں کہ ہم سیاست میں حصہ نہیں لینگے یا عوام کی منتخب پارلیمان، بالادست آئین اور صحیح جمہوری طور پر منتخب پارلیمان جو طاقت کا سرچشمہ ہوگا۔
محمود خان اچکزئی نے کہا کہ پیکاآرڈیننس سے یہ بہتر سلوگن ہے کہ لاٹھی گولی کی سرکار نہیں چلے گی وہ اگر کسی جرنیل یا جمہوری طور پر منتخب وزیر اعظم اپنے اختیارات کا ناجائز طور پر استعمال کرکے امیر المومنین بننے کی کوشش کریگا آمریت نافذ کریگا اس کے خلاف بھی ہماری سلوگن یہی ہونی چاہیے، یا پھر کوئی جج عدالتی فیصلے طاقت کے ذریعے سوسائٹی پر مسلط کریگا ان سب کے خلاف ہم نے متحدہ محاذ بنانا ہوگا۔
میں یہ پوچھتا ہوں کہ آج اگر میرا دوست شہباز شریف پیکا آرڈیننس ختم کردیتا ہے تو کیا پھر اس حکومت کی قانونی حیثیت تسلیم ہوجائیگی۔
ابھی اگر ہم مولانا فضل الرحمن صاحب کو کہتے ہیں کہ آپ بڑے لوگوں کے مابین بیٹھتے ہیں اُن سے کہے کہ پیکا آرڈیننس واپس لیا جائے تو کیا پھر ہم جدوجہد ختم کرینگے؟
پاکستان کے پاس ٹائم بہت کم ہے یہ ہمہ جہتی بحرانوں میں مبتلا ہے بالکل اگر اسے ہم عمارت سے تعبیر کریں تو اس کی بنیادوں کو ہم کھوکلا کرچکے ہیں یا تو پھر بیٹھے بیٹھے گر جائیگا یا پھر ہم نے ملکر عقل سلیم سے کام لیکر اجتماعی دانش سے اس کی از سر نو تعمیر کرنی ہوگی۔
از سر نو ایک جمہوری فیڈریشن آف پاکستان جس میں آئین بالادست ہو، پارلیمنٹ طاقت کا سرچشمہ ہو، یہاں بسنے والے پنجابی، سندھی، بلوچی، پشتون، سرائیکی ان سب کے اپنے اپنے وطنوں میں اللہ تعالیٰ نے جو نعمتیں قدرتی معدنیات وسائل پیدا کیئے ہیں اُس پر ان کا آئینی حق ہو یہ پاکستان پھر قیامت تک چلے۔
مولانا فضل الرحمن صاحب سے ہم کہتے ہیں وہ بڑے آدمی ہیں جنکی بات شہباز شریف اور کچھ اور لوگ بھی سنتے ہیں کہ مولانا صاحب اُنہیں کہہ دیں کہ یہاں ایک فسطائی حکومت نہیں ہوگی، جاکر پشتونوں، بلوچوں، سندھیوں، سرائیکیوں،پنجابیوں سے کہہ دیں کہ اللہ پاک نے آپ کے وطن میں جو نعمتیں پیدا کی ہیں اس پر بنیادی حق آپ کے بچوں کا ہے۔
بس پھر سازشیں ختم ہوجائینگی کوئی پاگل نہیں کہ اپنے ملک کے خلاف اُٹھ کھڑا ہو۔ وہ کہتے ہیں کہ میں یہاں پڑا ہوں میں مومند، وزیر، مسعود، پٹھان، بلوچ، سندھی، سرائیکی،پنجابی ہوں میرے علاقے میں گیس، سونا، معدنیات پیدا ہوئے ہیں مجھے سارا مت دو لیکن ان پر میرے بچوں کا حق تسلیم کرو۔
آج اس ملک کو 75سال ہونے کو ہے لیکن آج بھی مولانا فضل الرحمن، اسد قیصر صاحب کے صوبے کے کم سے کم 70لاکھ انسان دنیا بھر میں مزدوری کے پیچھے گئے ہیں۔
سورۃ الرحمن میں اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کی نشانیاں انسان کو بتاتا ہے اور کہتا ہے کہ ’اور تم اپنے رب کی کون کونسی نعمتوں کو جھٹلاؤگے‘ اس ملک میں ہر نعمت موجود ہے اس کے باوجود یہاں کے عوام بھوکے ہیں، تین کروڑ انسان غربت کی لکیر کے نیچے زندگی بسر کررہے ہیں۔
آج بھی جن گاڑیوں میں ہم پھرتے ہیں اس کی پیٹرول کی ٹینکی 22ہزار میں بھری جاتی ہے لیکن غریب پنجابی، سندھی، سرائیکی،بلوچ پشتون کو 20ہزار مہینے کا نہیں ملتا۔
پھر یہ ملک کیسے چلے گا۔ یہ فسطائی جمہوریتیں تو ہم نے دیکھ لی مصر سے لیکر الجزائر تک سب برباد ہوگئے معافی چاہتا ہوں اپنی غلط حکمرانیوں کی وجہ سے سب ہتھیارڈال رہے ہیں۔
اگر ہم نے عقل کے ناخن نہ لیے اور یہاں ایک جمہوری پاکستان کی تشکیل نہ کی خدانخواستہ پھر پتہ نہیں کیا ہوجائیگا۔
میں خدا کو حاضر ناظر جان کر آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ پاکستان کے آئین، جمہوریت، عوام کے حق حکمرانی پر اگر میں نے کسی جرنیل، شہباز شریف یا کسی بھی کوئی رابطہ کیا تو میرا خون آپ کو معاف ہوگا۔
محمود خان اچکزئی نے کہا کہ یہ کہا جارہا ہے کہ پیکا ایکٹ کاسیاہ قانون صحافیوں کو جھوٹ بولنے سے روکنے کے لیے ہیں۔ آپ بتائیں آپ نے جو اتنا بڑا جھوٹ کہا آئین کی حفاظت کی قسم کھائی، آپ اپنے آپ سے اپنے گھروالوں سے پوچھیں کہ کیا 8فروری2024کے الیکشن آپ نے جیتا ہے۔
یہاں ہمارا ایک ترک دوست آیاہے اُسے وزیر اعظم ہاؤس قیدی کی طرح بُلایاجس میں نہ مولانا فضل الرحمن صاحب، نہ میاں محمد نواز شریف نہ دیگر ہمارے اکابرین موجود ہیں بلکہ آدھی پارلیمنٹ نہیں ہے۔
وہ ایک سیاسی آدمی ہے بہت بڑی سختیوں سے گزر کر آیا ہے اُس نے ترکش آرمی کا جس کا ترک کی سیاست میں ہمارے آرمی سے زیادہ خطرناک رول تھالیکن اس نے اپنے عوامی طاقت سے اُن کو پیچھے دھکیل کر ایک جمہوری تر کی کی تخلیق کی اور آپ اُس کو اس طرح لے آئیں۔
میں معافی چاہتا ہوں بُری بات ہے کہ پچھلی دفعہ ہمارے ایران کے بہت بزرگ آدمی آئے تھے انہوں نے اوپن تقریر میں کہا کہ میں پاکستانی عوام سے بات کرنا چاہتا ہوں یعنی ایک میدان میں لیکن ہم نے میدان یا اجتماع تو دور کنار پارلیمنٹ بھی نہیں لیجاسکے کیونکہ ایسا کرنے سے کوئی اورشاید ناراض ہوتے ہیں۔
ایسے ملک نہیں چلتے ملک آزادی، جمہوریت سے چلتے ہیں۔
محمود خان اچکزئی نے کہا کہ پاکستان مشکل دوراہے پر کھڑا ہے۔ سیاستدان، ججز، جرنیل، صحافی، دانشور، تاجر،اقتصادی ماہرین ہم نے اگر اکٹھے ملکر اجتماعی دانش سے ایک راستہ نہیں نکالا تو پھر تاریخ ہمیں معاف نہیں کریگی پھر کوئی داستان نہیں ہوگی۔
ہماری کسی کے ساتھ کوئی دشمنی نہیں ہم چاہتے ہیں کہ ایک جمہوری پاکستان ہو اور طاقت کا سرچشمہ پارلیمنٹ ہو۔
محمود خان اچکزئی نے کہا کہ حق اور باطل کی لڑائی اُس دن شروع ہوئی جب پہلے انسان نے انکار کیا کہ ’نہیں‘۔
اس لیے شاید ہمار اکلمہ بھی انکار سے شروع ہوتا ہے کہ (نہیں ہے کوئی طاقت سوائے اللہ کے)۔
دنیا اپنے اُن بچوں کو پالتی ہے انکی تربیت کرتی ہے انہیں ہمت دیتی ہے جو Noکہنے کی طاقت رکھتے ہو۔
ہمارے ہاں جو اپنی وفاداری،ضمیر،عزت کو فروخت کرتا ہے اُسے وفادار کہاجاتا ہے اور جو مقابلہ کرتا ہے اسے جیلوں میں ڈال دیا جاتا ہے۔
اب بھی ہزاروں کی تعداد میں نوجوان بچے جیلوں میں اس لیئے پڑے ہوئے کہ انہوں نے آئینی حقوق کا دفاع کرتے ہوئے اجتماع کا حق، پارٹی بنانے، زندہ اباد مردہ آباد کے حق کے لیے وہ نکلے ریڈ زون میں سیدھا ان کے سروں پر گولیاں ماری گئیں۔
امریکہ میں ایک سیاہ فام غلط طور پر مارا گیا سارا امریکہ نکل آیا۔ یہاں ہمارے بچے مارے گئے۔ پولیس تھانوں میں بچوں، بچیوں کے ساتھ جو ہوا میں بتا نہیں سکتا یہاں خواتین بیٹھی ہیں۔
خدانخواستہ اگر یہ آرمی خارجی آرمی ہوتی تو وہ بھی ہمارے ساتھ یہی سب کچھ کرتی ہمارے بچوں،بچیوں کو بے عزت کرتے، تھانوں میں رکھتے ڈنڈے مارتے گولیاں مارتے۔
خدا کے لئے مہربانی کریں اکھٹے ہوجائیں میں کچھ نہیں چاہتا۔
میں پیچھے رہونگا اور جو پیچھے بھاگے گا اُس کو ڈنڈا مارونگا۔ پیچھے کوئی نہیں بھاگے گا ہم نے آگے بڑھنا ہے اور اس ملک کو بچانا ہے۔
Leave a Reply