لاہور/کوئٹہ : لاہور بار ایسوسی ایشن اور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام’’ 26ویں آئینی ترمیم او ر آئینی بحران‘‘ کے عنوان سے منعقدہ سمینار کی صدارت پشتونخواملی عوامی پارٹی کے اور تحریک تحفظ آئین پاکستان کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے کی ۔
محمود خان اچکزئی نے صدارتی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں اپنے بزرگوں کی اس غداری کو جسے وہ لوگ غداری کہتے تھے ان جرنیلوں کی وفاداری سے مقدس سمجھتا ہوں جو آئین کو روندھتے ہیں۔ ہم نے چار ضلعوں کی فوج کو پاکستان کی فوج سمجھا ہے اگر ہم آپ سے پوچھیں کہ آپ کی اس فوج میں بلوچ ،سندھی اور پشتون یا سرائیکی کا حصہ کہاں ہے تو پھرغداری کے القابات دیئے جائینگے۔ پاکستان کی فوج میں اور ملک کے اختیار کے ہر ادارے میں اپنا حصہ چاہتے ہیں۔
پاکستان کو چلانے کے امکانات ہیں لیکن ہمارے افواج نے توبہ کرنی ہوگی، دنیا کے کسی ملک میں ایسا نہیں کہ آئی ایم ایف کا کوئی بندہ آکر سیدھا سپریم کورٹ چلا جائے ، پاکستان اقتصادی طور پر اور ہر لحاظ سے اس وقت کمزور ہے۔ پاکستان کو اگر آگے بڑھنا ہے آپ نے حق حکمرانی میں بلوچ، پشتون ، سندھی ، سرائیکی ، غریب پنجابی کو حصہ دینا ہوگا۔ یہاں نہ حلف کی پاسداری ہوتی ہے نہ وعدے کی پاسداری کی جاتی ہے،جن ججز نے مارشلائوں میں پی سی او کے تحت حلف نہیں اٹھایا انہیں اور اُن سیاسی کارکنوں کو جنہوں نے جمہوریت کے لیے قربانیاں دیں جمہوریت کے ہیروز ڈکلیئر کیئے جائیں،فارم45والے فارم47والی اسمبلی میں نہ بیٹھیں اور پارلیمنٹ کے باہر اپنی اسمبلی سجائیں تب یہ نمائندہ اسمبلی ہوگی۔ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ ہم ذاتی طور پر تمام انسانیت کو آدم علیہ السلام اور حوا انا کے بچے سمجھتے ہیں ، پشتونخوامیپ تمام انسانیت کو بھائی بہن سمجھتی ہے
، انسانوں کے درمیان فاصلے اس بنیاد پر نہیں ناپتے کہ اُس کی زبان کیا ہے ، نسل ، رنگ ، مذہب ، عقیدہ ، کس فکر،مسلک اور پارٹی کا ہے ۔ یہ ملک ایک رضاکارانہ فیڈریشن ہے جس میں پشتون ،بلوچ ، سندھی ، سرائیکی اور پنجابی اپنے اپنے آبائی وطن پر آباد ہیں، کوئی کسی کا آقا اور غلام نہیںلیکن ہمارے کچھ گلے شکوے ہیں لاہور سے میں بعض گلے کرونگا بعض وعدے کرونگا۔ گلہ ہمارا یہ ہے ہمارے بزرگوں کو ون یونٹ کے غلط کہنے پر ایف سی آر کے سیاہ قانون کے خلاف آواز بلند کرنے اور ون مین ون ووٹ کے مطالبے اور پاکستان کو فیڈریشن قرار دینے کی پاداش میں سینکڑوں سال جیل دیئے ۔
ہمارے بچوں کو سینکڑوں انسانوں کو دفعہ 144کی پاداش میں قید وبند اور قتل کیا گیا ۔ اور آپ کے شہر کے جو فوجی بھائی ہیں اُن کا جی چاہے آئین کو پائوں تلے روند ڈالتے ہیں ، آئین کو پھاڑ دیتے ہیں آئین کو درخور اعتناء نہیں سمجھتے لیکن ہمارے بچوں کو دفعہ 144کی خلاف ورزی پر قتل کرینگے اور آپ کو یہ عیاشی نصیب ہوگی جب جی چاہا دوڑ پڑے جب جی چاہا آئین کو روند ڈالے اور آپ پاکستان کے فرعون کی حیثیت سے ہمیں قابل قبول نہیں۔ ہمیں غدارکہا گیا میں اپنی کہانی نہیں سنانا چاہتا ، میرے والد اور ہمارے بزرگوں کو غدار کہا گیا ۔ میرے اپنے والد سے پہلی ملاقات تب ہوئی جب میری عمر چھ سال کی تھی اُس کا جرم یہ تھا کہ وہ پاکستان کو ایک فیڈریشن میں ون مین ون ووٹ کا مطالبہ کررہا تھا۔ و ہ کہتا تھا کہ انسان عدالت کے سامنے برابر ہونگے۔
محمود خان اچکزئی نے کہا کہ میری اپنے والد سے دوسری ملاقات آپ کے شہر لاہور کے جیل میں تب ہوئی جب میں میٹرک کا طالب علم تھا ، تیسری ملاقات جب میں انجینئرنگ کا طابل علم تھا 25سال میری عمر تھی ان سے ملاقات ہوئی ۔ ان کو غدار کہا گیا ، بزنجو صاحب پہ مقدمہ چلا کہ آپ کے جیب سے جو نوٹ نکلا ہے اُس پر لکھا ہے ون یونٹ مردہ باد، میرگل خان نصیر کو اس پر بات پر سزادی گئی کہ جب آپ کے فلاں ساتھی کو سزا سنائی گئی تو آپ کے ماتھے پہ شکن کیوں آئیں اس پہ ہمیں سزائیں دی گئیں ہم نے پھر بھی پاکستان مردہ باد نہیں کہا ۔ ہاں یہ گلہ ہم سے تھا کہ اس قسم کے پاکستان کو زندہ باد ہم گناہ سمجھتے تھے جس میں جبر ہوگا،جس میں دفعہ 144کی خلاف ورزی پر لوگوں کو مارا جائیگا۔ جس میں لوگوں کے وسائل لوٹے جائینگے وہ پاکستان اگر آپ سب لوگ قرآن سر پر رکھ کے دن رات نعرے لگاتے رہیں کہ پاکستان زندہ باد تب بھی یہ پاکستان زندہ باد نہیں ہوگا۔ پاکستان تب زندہ باد ہوگا جب پنجابی ، سندھی ، سرائیکی ، پشتون ،بلوچ زندہ باد ہوگا۔
محمود خان اچکزئی نے کہا کہ علامہ اقبال کا شعر پڑھ کر سنایا کہ ’’ پھر بھی ہم سے یہ گلہ کہ ہم وفادار نہیں ،ہم وفادار نہیں تو بھی تو دلدار نہیں‘‘محمود خان اچکزئی نے کہا کہ میں اپنے بزرگوں کی اس غداری کو جسے وہ غداری کہتے تھے ان جرنیلوں کی وفاداری سے مقدس سمجھتا ہوں جو آئین کو روندھتے ہیں، جو آئین کو چھیڑتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ وہ غدار زندہ باد جو آئین کے لیے لڑے۔ جو آئین کی خودمختاری کے لیے ؒلڑے جو انسانی آزادی کے لیے لڑے۔
پاکستان کی فوج ہماری فوج ہے لیکن حقیقت میں یہ چار ضلعوں کی فوج ہے ، ہم نے چار ضلعوں کی فوج کو پاکستان کی فوج سمجھا ہے اگر ہم آپ سے پوچھیں کہ آپ کی اس فوج میں بلوچ ،سندھی اور پشتون یا سرائیکی کا حصہ کہا ہے تو پھرغداری کے القابات دیئے جائینگے۔ پاکستان کی فوج میں اور ملک کے اختیار کے ہر ادارے میں اپنا حصہ چاہتے ہیں۔
اس فوج میں پشتون ،بلوچ، سندھی اور سرائیکی کہاں ہے؟ ہمیں اس ملک کے فوج سمیت تمام اداروں میں اپنا حصہ چاہیے۔ پاکستان کے ہر خوشی اور ہر غم میں ہم آپ کے برابر کے شریک ہیں یہ نہیں ہوگا کہ پانچ وزیر اعظم ہمارے آئے پانچوںکے پانچوں جیل گئے ، ان پر الزامات لگائے گئے لیکن آج تک کسی بھی ایسے جرنیل کے خلاف جس نے آئیں سے کھلواڑ کیا ، آئین سے کھیلا ،آئین پھاڑا کسی سے کچھ بھی نہیں پوچھا گیا کہ کیوں؟ اس طرح نہیں چلے گا۔ ہم ایک ایسا پاکستان چاہتے ہیں کہ جس میں آئین کی بالادستی ہوگی لوگوں کی منتخب پارلیمنٹ طاقت کا سرچشمہ ہوگی
پاکستان کی داخلی وخارجی پالیسیاں اس پارلیمنٹ سے نکلے گی ابھی آٹھ فروری کو جس بُرے انداز میں آئین سے کھیلا گیا لوگوں کو ہروایا گیا ۔ خدا بھلا کرے عمران خان کے کارکنوں کا جنہوں نے نکل کر ان کا سارامنصوبہ ناکام بنادیا تھا ورنہ انہوںنے تو یہ طے کر ڈالا تھا کہ فلاں وزیراعظم ، فلاں صدر فلاں فلانی عہدے پر ہوگا۔ لاہور کا ایک آدمی کوئٹہ آیا تھا انہوں نے اپنی پارٹی کے کسی شخص سے کہا تھا کہ ہماری بات افواج پاکستان سے ہوگئی ہے
وہ ہمیں دو تھائی اکثریت دینگے فلاں وزیر اعظم ، فلاں صدر ہوگا۔ یہ میں گواہی دیتا ہوں شہباز شریف میرا دوست میرا بھائی ہے وہ جس سیٹ پر بیٹھا ہے جو اس کا نہیں ہے غلط ہے پلان بنا ہوا تھا لیکن الیکشن کے دن لوگوں کا سیلاب آیا ان سب کے بنائے گئے پلان کو اؒلٹا دیاتب انہوں نے فارم47کا سہارا لیکر نتائج تبدیل کیئے۔ پاکستان اقتصادی طور اور ہر لحاظ سے کمزور ہے ۔ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ شرم کی بات ہے کہ کل آئی ایم ایف کا آدمی آیا کسی سے پوچھے بغیر سیدھا سپریم کورٹ چلا گیا ، دنیا کے 195ممالک ہیں کہیں ایسا نہیں ہوسکتا نہ کوئی جراء ت کرسکتاہے کہ آئی ایم ایف سیدھا سپریم کورٹ جائے۔ کہاں اس ملک کو آپ لے جارہے ہیں؟ پاکستان کو چلانے کے امکانات ہیں لیکن ہمارے افواج نے توبہ کرنی ہوگی ۔
یہ جاسوسی اداروں کے پائپ سے لوگوں کو لے جانا پھر اُنہیں اقتدار دینا یہ ڈرامہ سوویت یونین میں فیل ہوچکا ۔سوویت یونین میں کوئی آدمی نہ وزیر اعظم ، نہ وزیر خارجہ نہ آرمی چیف ،نہ صدر بن سکتا تھا نہ کچھ۔ جب تک وہ KGBکے پائپ لائن سے نہ گزرتا۔ لیکن پھر آپ نے دیکھا سوویت یونین سو فیصد ترقی یافتہ ہر گھر تک سڑک، بجلی اور تمام سہولیات مہیاتھیں پھر لوگوں نے کیوں کہا کہ ہم اس فیڈریشن میں نہیں رہنا چاہتے ۔ 10ممالک نے انکار کیا۔
اس لیے کہ انسان حق حکمرانی چاہتا ہے ۔ یہاں انگریزوں کی حکومت تھی لاہور میں اُن انگریزوں نے ہمارے لیے بہترین تعلیمی ادارے قائم کیئے ۔ ایف سی کالج ، ایڈورڈ کالج ، بہترین صحت جوڈیشری اور سڑکوں کا، پولیس کا نظام دیا رشوت کم تھی۔ پھر قائد اعظم محمد علی جناح اور گاندھی جی کو کیا پڑی تھی کہ انہوں نے کہا ہمیں آزادی چاہیے۔ ان کو حق حکمرانی میں حصہ چاہیے تھا ۔ آج پاکستان کو اگر آگے بڑھنا ہے آپ نے حق حکمرانی میں بلوچ، پشتون ، سندھی ، سرائیکی ، غریب پنجابی کو حق حکمرانی میں حصہ دینا ہوگا۔ جس ملک میں روزانہ 35سے 40آدمی گولیوں سے مرتے ہوں اس وقت تک امن نہیں آسکتا جب انصاف نہیں ہوگا۔ امن ، انصاف سے جُڑی ہوئی چیز ہے جہاں انصاف ہوگا وہاں امن ہوگا جس گھر میں انصاف نہیں ہوگا میاں بیوی ،بھائی بھائی لڑینگے جس گائوں میں انصاف نہیں ہوگا وہ نہیں چل سکتا ۔
اس لیئے قرآن کریم نے کہا ہے کہ آپ عدل کریں تاکہ آپ تقویٰ کے قریب ہوجائیں۔ شرعی مسئلہ ہے کہ جس آدمی پہ جھوٹ بولنا ثابت ہوجائے وہ کسی عدالت میں پھر گواہی نہیں دے سکتا۔ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ یہاں نہ حلف کی پاسداری ہوتی ہے نہ وعدے کی پاسداری کی جاتی ہے جو ضمیر بیچتا ہے جو وفاداریاں بیچتا ہے وہ وفادار ہے اور جو انکار کرتا ہے وہ غدار ہے ۔ ہم اس غداروں کی لسٹ میں ہیں ہم اس دوسرے وفاداروں کی لسٹ میں نہیں جائینگے ۔
محمد علی جناح کے الفاظ تھے کہ میری جیب میں جتنے سکے ہیں وہ سارے سکے کھوٹے ہیں ۔ 75سال سے ایسے خاندان تھے جو انگریزوں کے وفادار تھے جب پاکستان بنا محمد علی جناح، لیاقت علی خان، غلام محمد پھر فلان فلاں جن کے بھی حکومت آئے یہ کھوٹے سکے سدابہار سیاستدان ان کے ساتھ رہے۔ ان کو ہر صورت سیاست سے نکالنا چاہیے ۔ محمودخان اچکزئی نے کہا کہ ہم ان ججز کے مقروض ہیں جنہوں نے پہلے مارشل لاء ، دوسرے مارشل لاء ، تیسرے مارشلاء اور چوتھے مارشل لاء میں PCOکے تحت حلف نہیں اٹھایا یا اپنے بچوں کے پیٹ پہ لات ماری اور قربانیوں کی زندگی گزار رہے ہیں ۔ ہمیں تمام پاکستان کے عوام سے وعدہ کرنا چاہیے کہ جب بھی ہمارے جیسے لوگ اقتدارمیں آئیں تو ضرور ان لوگوں کو جمہوریت کے ہیروز ڈکلیئر کرنا چاہیے اور ان کے بچوں کو وہ سارے مراعات دینے ہونگے جو انہوں نے قربان کردیئے ۔ پاکستان کی تاریخ میں سینکڑوں سیاسی کارکن جمہوریت کے لیے قربان ہوئے جنہوں نے نہ وزیر اعظم ، نہ وزیر نہ کچھ بننا تھا وہ شہید ہوئے ، تاریک راہوں میں مارے گئے ان بچوں کو جمہوریت کے ہیروز ڈکلیئر کرنا چاہیے۔ اور ان کے خاندانوں کو مراعات دینی چاہیے۔ جن لوگوں نے کوڑے کھائے ان کے ساتھ مدد کرنی چاہیے۔ اور جن یار لوگوں نے پی سی او کے تحت حلف اٹھائے ہیں ان کی تصاویر تمام ہائیکورٹ سے ہٹانے چاہیں۔
اگر ہم نے پاکستان کو چلانا ہے تو یہ سب کچھ کرنا ہوگا۔ ایک ٹیک پر یہاں70، 70کروڑ روپے دیئے گئے۔ ڈی چوک پر جو بچے مارے گئے ان کے خاندانوں کی مدد کرنی ہوگی، ان شہید بچوں کے ایف آئی آر وزیر اعظم ، وزیر داخلہ اور آئی جی اسلام آباد کے خلاف کاٹنی چاہیے۔ سب کو گولیاں سر میں لگی ہیں وہ کیا چاہتے تھے زندہ باد ، مردہ باد ۔ یہ جو جعلی حکومت ہے ان کے ساتھ مذاکرات اس لیئے نہیں ہونے ہیں کہ انہوں نے مینڈیٹ پہ ڈاکہ ڈالا ہے ۔میری اپنے اتحادیوں کو یہ تجویز ہے کہ ہم فارم45والے سب اس فارم47والی اسمبلی میں نہ بیٹھیں بلکہ پارلیمنٹ کے باہر اپنی اسمبلی فارم45والی سجا لیں اسدقیصر کو سپیکر بنائیں اور کارروائی کریں ڈیپلومیٹ بھی آئینگے،وکیل بھی آئینگے کہ اصل اسمبلی یہ ہے ۔ اس موقع پر دیگررہنمائوں نے بھی خطاب کیا اور وکلاء کی بڑی تعداد نے سیمینار میں شرکت کی ۔
Leave a Reply