|

وقتِ اشاعت :   2 days پہلے

تربت:جدگال ڈن پر لاپتہ شاہ جہان برکت کی بازیابی کے لیے جاری دھرنا گاہ سے خطاب کرتے ہوئے وسیم سفر اور فیملی ممبران نے کہاکہ بلوچستان اس وقت انتہائی نازک حالات سے گزر رہا ہے

، جہاں ہر لمحہ بلوچ فرزند جبری لاپتہ یا شہید ہو سکتے ہیں، ضلع کیچ میں ٹارگٹ کلنگ اور جبری گمشدگیوں میں حال ہی میں بے تحاشہ اضافہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ اداروں نے یہ طے کر لیا ہے کہ بلوچوں کو سننے کے بجائے طاقت کے ذریعے کچل دیا جائے گا۔ اس پر تیزی سے عمل کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 12 دسمبر 2024 کو سیکورٹی فورسز اور اداروں کے اہلکاروں نے شاہ جان برکت کو ان کی رہائش گاہ سری کہن میں چھاپہ مار کر گرفتار کیا اور جبری طور پر لاپتہ کر دیا وہ آج تک لاپتہ ہیں۔

ان کی فیملی گزشتہ دو مہینوں سے ضلعی انتظامیہ، ڈپٹی کمشنر، پولیس اور دیگر اداروں کے دفاتر کے دروازے کھٹکھٹا رہی ہے لیکن انہیں کوئی جواب نہیں مل رہا۔ جبری لاپتہ افراد کے لواحقین کا مطالبہ صاف ہے. اگر ہمارے لوگ ملکی آئین کی خلاف ورزی میں ملوث ہیں تو انہیں منظر عام پر لایا جائے اور عدالت میں پیش کیا جائے۔ بین الاقوامی قوانین کے مطابق کسی بھی سیکورٹی ادارے کو یہ اجازت نہیں کہ وہ کسی شہری کو جبری لاپتہ کر کے سالوں تک غائب کر دے اور اس کے اہل خانہ کو اس کے بارے میں کوئی معلومات نہ دے وہ کہاں کس حال میں کس ادارے کے پاس ہیں۔

10 فروری 2025 کو شاہ جان برکت کی فیملی نے ان کی عدم بازیابی کے لیے دھرنا دیا، جس کے نتیجے میں ضلعی انتظامیہ کے اے ڈی سی مقبول انور اور ڈی ایس پی پولیس لعل جان بلوچ نے لواحقین سے مذاکرات کیے اور اس بات پر اتفاق کیا کہ ایک ہفتے کے اندر شاہ جان برکت کو بازیاب کر کے عدالت میں پیش کیا جائے گا یا رہا کر دیا جائے گا۔ اس پر دھرنا مؤخر کر دیا گیا، لیکن آٹھ دن گزرنے کے باوجود انتظامیہ یا دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔

اس کے نتیجے میں، شاہ جان برکت کے لواحقین نے 18 فروری 2025 کو دوبارہ ڈی بلوچ ایم ایٹ شاہراہ پر دھرنا دیا اور شاہ جان برکت کی عدم بازیابی کے خلاف احتجاج کیا ڈی بلوچ ایم ایٹ شاہراہ پہ دھرنا دے کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ہم کیچ کے باشعور غیور عوام، سیاسی و سماجی تحریک، تنظیموں کے سربراہان اور کارکنوں ہر مکاتب فکر کے لوگوں سے اپیل کرتے ہیں کہ اس ظلم و جبر بربریت اغوا نما گرفتاریوں کے خلاف آواز اٹھائیں جبری لاپتہ متاثرہ لواحقین کی آواز بنیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم سب مل کر اس ظلم کا خاتمہ کریں اور انصاف کی آواز بلند کریں۔ جبری طور پر لاپتہ افراد لواحقین اپنے پیاروں کی با خفاظت بازیابی جان سلامتی کیلئے جھوٹی طفلی تسلیوں کی وجہ سے خاموشی اختیار کرنے کے بجائے اپنے جبری لاپتہ لوگوں کی کیسز کو متعلقہ اداروں میں رپورٹ کریں آواز اٹھائیں ہم ریاست و ریاستی اداروں کو واضح پیغام دینا چاہتے ہیں

ہمیں صحیح سلامت اپنے جبری لاپتہ لوگ چاہیے یہ نہیں ہم اسکی باخفاظت بازیابی کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں دوسری جانب آپ انہیں فیک انکاؤنٹر میں شہید کر کے انکی مسح شدہ لاشیں پھینکتے ہیں جس کی واضح مثال کیچ سے جبری لاپتہ شہید حیات سبزل اتفاق منظور پہلے جبری طور پہ لاپتہ کر دیئے گئے پھر انکی گولیوں سے چھلنی لاشیں برآمد ہوئے ہم مزید لاشیں اٹھانے کے متحمل نہیں ہوسکتے ہم لوگ تھک چکے ہیں لاشیں اٹھانے طویل نہ ختم ہونے والے انتظار میں یہ حال انہی ماں باپ بہن سے پوچھیں جس کے پیارے ان سے زبردستی چھین لیا گیا ہے یہ درد انہی بیٹے یا بیٹی کو معلوم ہو جو گزشتہ 17 18 سالوں سے اپنی باپ ماں اپنے بیٹے بہن اپنی بھائی کی غم برداشت کر رہے ہیں۔

اگر جبری لاپتہ افراد کو منظر عام پہ لاکر بازیاب نہیں کرایا گیا تو ہم لوگ جبری لاپتہ افراد کے لواحقین کے ساتھ اپنے آئندہ لائحہ عمل طے کریں گے، ملکی و بین الاقوامی قوانین کے مطابق جتنے ہمارے بنیادی حقوق ہیں اسے استعمال کریں گے بلوچ قوم سے گزارش ہے کہ آواز اٹھائیں جہد مسلسل اور مزاحمت بلوچ قومی بقاء￿ کا ضامن ہے۔ ہم تربت انتظامیہ کو باور کراتے ہیں کہ پرامن احتجاج اور دھرنا و مظاہرہ ہمارا ائینی جمہوری حق ہے برائے کرم اس کی آڑ میں رکاوٹ بننے سے گریز کریں ڈی بلوچ احتجاجی دھرنا چند قدم فاصلے پر تربت پولیس دھرنا کے شرکاء کو دھرنا گاہ میں شرکت سے روک رہے ہیں اگر ضلعی انتظامیہ یا پولیس نے اپنا رویہ برقرار رکھا تو اس غیر آئینی و غیر قانونی عمل کے خلاف آئندہ لائحہ عمل کا بہت جلد اعلان کریں گے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *