|

وقتِ اشاعت :   February 19 – 2025

کوئٹہ:پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں محکمہ جنگلات و جنگلی حیات کی آڈٹ میں پائی جانے والی بے ضابطگیوںاور تخمینی کھاتوں پر غور و کیا گیا۔

بدھ کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس چیئرمین اصغر علی ترین کی زیر صدارت کمیٹی روم میں منعقد ہوا، جس میں میں ڈی جی آڈٹ شجاع علی، ڈپٹی اکائونٹنٹ جنرل بلوچستان حافظ نورالحق ،ایڈیشنل سیکرٹری پی اے سی سراج لہڑی، ایڈیشنل سیکرٹری محکمہ جنگلات و جنگلی حیات عبداالحمید زیری ایڈیشنل سیکرٹری خزانہ اسفندیار خان ، چیف اکائونٹس آفیسر سید محمد ادریس، ٹیکنیکل ایڈوائیزر سی اینڈ ڈبلیو مختیار احمد ، و دیگر نے شرکت کی۔

اجلاس کے دوران تخمینی کھاتوں کے جائزے کے دوران یہ انکشاف ہوا کہ محکمہ جنگلات و جنگلی حیات نے خالی آسامیوں کی وجہ سے غیر ترقیاتی بجٹ کا 12.03 فیصدسرنڈر کر دیا۔ پی اے سی کے رکن زابد علی ریکی نے روزگار کے مواقع کی کمی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آسامیوں کو پر نہ کرنا ادارے کی نااہلی کو ظاہر کرتا ہے۔

چیئرمین پی اے سی اصغر علی ترین نے کہا کہ مختص شدہ فنڈز کا سرنڈر یا ضائع ہونا ناقابل قبول ہے اور یہ غفلت کے مترادف ہے۔چیئرمین نے یقین دہانی کرائی کہ پی اے سی انتظامی مسائل کے حل میں محکمہ کی مدد کرے گی تاہم اگر کسی افسر کو کسی کوتاہی کا ذمہ دار پایا گیا تو اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی کسی بھی افسر کی جانب سے غفلت برتنے پر اسے حکومت کو رپورٹ کر کے تبدیل کروایا جائے گا۔

اسکے علا وہ اجلاس میں 2019-20کے مالی سال میں 10بلین درخت لگانے پر خرچ کی جانے والی رقم کے ریکارڈ کی عدم فراہمی پر غور کیا گیا جنرل فنانشل رولز (GFR) اور آڈیٹر جنرل کے آرڈیننس کے مطابق محکمے آڈٹ کے لئے تمام ریکارڈ فراہم کرنے کے پابند ہیں لیکن بار بار کی یاد دہانیوں کے باوجود کوئی دستاویزات پیش نہیں کی گئیں۔کمیٹی نے ریکارڈ کے گم ہونے پر شدید تحفظات کا اظہار کیا۔ چیئرمین کمیٹی اصغر علی ترین نے کہا کہ اگر سابقہ ڈویژنل فارسٹ آفیسر ریٹائر ہو چکے ہیں تو ان کے خلاف کارروائی ہوگی اور موجودہ ڈی ایف او کو بھی بغیر مکمل ریکارڈ لئے چارج سنبھالنے پر جوابدہ ٹھہرایا جائے گا۔

پی اے سی نے محکمے کو فوری طور پر متعلقہ افسر سے رابطہ کر کے درختوں کی شجرکاری کے فوٹو گرافک ثبوت حاصل کرنے کی ہدایت دی۔ تاہم کمیٹی نے فراہم کردہ شواہد کو غیر تسلی بخش قرار دیا اور خبردار کیا کہ اگر ریکارڈ فراہم نہ کیا گیا تو ذمہ دار افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کی جا سکتی ہے۔پی اے سی نے بلین ٹری پروگرام کے سست روی سے جاری کام پر بھی تشویش کا اظہار کیا یہ منصوبہ 2019-20میں 2,968.889 ملین روپے کی مالی گنجائش کے ساتھ شروع کیا گیا تھالیکن اب تک صرف 216.642 ملین روپے7.30فیصد خرچ کئے گئے جبکہ 2,752.247 ملین روپے غیر استعمال شدہ رہ گئے۔محکمے نے فنڈز کی تاخیر سے ریلیز اور عملے کی کمی کو منصوبے کی سست پیش رفت کی وجوہات قرار دیا۔

چیئرمین نے محکمے کو فوری طور پر تفصیلی ریلیز اور اخراجات کی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت دی۔ کمیٹی نے آڈٹ پیرا کو ملتوی کرتے ہوئے ہدایت کی کہ ایک ہفتے کے اندر مکمل پیش رفت رپورٹ جمع کروائی جائے۔کمیٹی نے 165.688 ملین روپے کے اخراجات کے باوجود منصوبے کی مؤثر نگرانی اور جائزہ لینے میں ناکامی پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔ پی اے سی نے اس بات پر زور دیا کہ منصوبوں کی شفافیت اور جوابدہی یقینی بنانے کے لئے مانیٹرنگ اور ایویلیوایشن ضروری ہیں۔چیئرمین اصغر علی ترین نے کوئٹہ میں شجرکاری کا Physical Verification کروانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ بین الاقوامی تنظیمیں پاکستان کی ماحولیاتی ذمہ داریوں کی نگرانی کر رہی ہیں۔ انہوں نے آڈیٹر جنرل کے دفتر کو ہدایت کی کہ وہ پی اے سی کے ممبران کے ساتھ مل کر دو ہفتوں کے اندر اس منصوبے کی تصدیق کریں۔پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے مشاہدہ کیا کہ 9.985 ملین روپے بلوچستان پبلک پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی (BPPRA) کے قواعد پر عمل کئے بغیر خرچ کئے گئے۔

چیئرمین نے رقوم کو چھوٹے حصوں میں تقسیم کر کے ٹینڈر کے ضابطے سے بچنے کے عمل کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور اسے خریداری کے قوانین کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا۔پی اے سی نے انفراسٹرکچر منصوبوں کے لئے کام مکمل ہونے سے قبل دی گئی ایڈوانس ادائیگیوں کی بھی تحقیقات کی۔ ایک کیس میں گوادر میں دفتر کی عمارت کی تعمیر کے لئے 5.950 ملین روپے کی ادائیگی کی گئی، جو معاہدہ ملنے کے صرف آٹھ دنوں میں مکمل کر لی گئی جو کہ ایک غیر حقیقی ٹائم لائن ہے۔

اسی طرح چلتن نیشنل پارک میں سیاحتی جھونپڑیوں کی تعمیر کے لئے 5.940 ملین روپے کی پیشگی ادائیگی کی گئی، لیکن کام اب تک مکمل نہیں ہوا۔کمیٹی نے مالی بے ضابطگیوں پر شدید تحفظات کا اظہار کیا اور ہدایت کی کہ ان اخراجات کی تصدیق کے لئے تھرڈ پارٹی ویلیڈیشن کروائی کی جائے اور متعلقہ آفیسر کو ایک سال کیلئے او ایس ڈی کیا جائے اجلاس کا خلاصہ پیش کرتے ہوئے چیئرمین پی اے سی نے خبردار کیا کہ اگر محکمہ جنگلات و جنگلی حیات تمام ریکارڈ فراہم کرنے اور اخراجات کا جواز پیش کرنے میں ناکام رہا تو معاملہ قومی احتساب بیورو کو بھیجا جائے گا۔چیرمین پی اے سی نے کہاکہ اربوں روپے خرچ ہو چکے ہیں لیکن زمین پر کوئی خاص پیش رفت نظر نہیں آ رہی۔

ہر آڈٹ پیرا میں بھاری رقوم شامل ہیں لیکن محکمہ کے پاس کوئی تسلی بخش جواب نہیں۔ ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں سوائے اس کے کہ ان معاملات کو مکمل حقائق جان کر سخت سے سخت فیصلے کرینگے اور صوبے کے غریب عوام کا ایک ایک روپیہ کا حساب محکمہ کے ذمہ داران و محکمہ کے اعلی حکام سے وصول کر کے رہیں گے ہی ہمارے کمیٹی و اس کے ممبران کی پختہ عزم ہے محکمہ پی اے سی کے ہر فیصلہ کا پابند ہوگا پی اے سی نے محکمے کو تمام زیر التواء رپورٹس مقررہ مدت میں جمع کرانے کی ہدایت کی اور خبردار کیا کہ مالی بے ضابطگیوں اور انتظامی غفلت کے ذمہ دار افسران کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔