پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان تکنیکی مذاکرات تقریباً مکمل ہوگئے جس کے بعد پالیسی لیول کے مذاکرات جاری ہیں۔
پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان تکنیکی مذاکرات کا پہلا سیشن وزارت خزانہ کے حکام اور دوسرا ایف بی آر حکام کے ساتھ مکمل ہوا ۔
پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان پالیسی لیول مذاکرات کا آغاز ہوگیا ہے جس میں وزیر خزانہ محمد اورنگزیب اور ناتھن پورٹر قیادت کررہے ہیں جب کہ سیکرٹری خزانہ اور چیئرمین ایف بی آر بھی مذاکرات میں شریک ہیں۔
پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان 7 ارب ڈالر کے قرض پروگرام کے لیے پالیسی مذاکرات ہورہے ہیں جو 2 ہفتے تک جاری رہیں گے۔
ان مذاکرات کے بعد جائزہ مشن اپنی سفارشات آئی ایم ایف ایگزیکٹو بورڈ کو دے گا جو اس ماہ کے آخر یا اپریل کے اوائل میں 1.1 ارب ڈالر کی اگلی قسط جاری کرنے اور بجلی سستی کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں حتمی فیصلہ کرے گا۔ آئی ایم ایف کو جولائی سے دسمبر 2024کے ٹیکس اہداف اور ٹیکس شارٹ فال پر بریفنگ دی گئی جب کہ اس دوران آئی ایم ایف حکام کے ساتھ ٹیکس ریونیو پورا کرنے کے اقدامات پر بات چیت کی گئی۔
ایف بی آر حکام نے آئی ایم ایف وفد کو بتایا کہ ایف بی آر میں اصلاحات کا عمل جاری ہے اور ایف بی آر کے پالیسی ونگ کو الگ کردیا گیا ہے، ایف بی آر ٹرانسفارمیشن پلان پر عملدرآمد کررہا ہے۔
مذاکرات کے دوران آئی ایم ایف وفد آئندہ مالی سال کے بجٹ کیلئے تجاویز بھی دے گا۔ آئی ایم ایف کی جانب سے زیادہ زور ٹیکس اصلاحات اور ٹیکس نیٹ بڑھانے پر ہے اس کے ساتھ مختلف شعبوں پر ٹیکس لاگو کرنے پر زور دیا جارہا ہے تاکہ ٹیکس اہداف کا حصول ممکن ہوسکے۔
آئی ایم ایف کی شرائط سخت اور کڑی ہیں مگر شرائط کوپورا کرنا بھی ضروری ہے چونکہ پاکستان اس وقت آئی ایم ایف پروگرام میں ہے ملکی معیشت کا زیادہ انحصار قرضوں پر ہے جو کہ ملکی معیشت کیلئے بہتر نہیںبلکہ مجبوری کا فیصلہ ہے مگر مستقبل میں اس معاشی پالیسی سے نکلنے کیلئے حکومت کو اپنا معاشی روڈ میپ تیار کرکے چلنا ہوگا تاکہ ملک معاشی خود مختاری اور خود انحصاری حاصل کرسکے کیونکہ قرضوں سے ملک بالکل بھی نہیں چلتے بلکہ اپنی معاشی پالیسیوں سے گروتھ کرتے ہیں جس کیلئے حکومت کو معاشی پالیسیوں کا ایک تسلسل برقرار رکھنا ہوگا جو ملک کو قرضوںسے نجات دلانے کے ساتھ معاشی طور پر مستحکم کرسکے۔
ملکی ترقی قرضوں سے نہیں، خود مختار آزاد معاشی پالیسی سے ممکن ہے!

وقتِ اشاعت : 4 hours پہلے
Leave a Reply