کوئٹہ: سینئر سیاستدان سابق سینیٹر نوابزادہ حاجی میر لشکری خان رئیسانی نے کہا ہے کہ غاصب قوتیں اسٹیبلشمنٹ اور زرداری کی ملی بھگت کے نتیجے میں بلوچستان کے وسائل کو بے دریغ لوٹ رہی ہیں
اس ملی بھگت کا مقابلہ کرتے ہوئے کئی سال پہلے پارٹی عہدے اور سینیٹ کی رکنیت سے استعفی دیا
تاہم سمجھوتہ نہیں کیا،بلوچستان کا مسئلہ طبقاتی نہیں قومی تاریخی اور معاشی ہے اور یہاں لوگ اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کررہے ہیں،سیاسی جماعتوں نے 2024 کے انتخابات سے قبل کوئٹہ کے ایک ہوٹل میں بیٹھ کرصوبے کے حقوق کا سودا کیا، سمجھوتے کی سیاست نے آج ملک کو اس نہج پر پہنچا دیا ہے، سیاسی جماعتیں مصلحت کے ذریعے اقتدار میں پہنچتی ہیں،
بلوچستان میں اظہار رائے کی آزادی کھبی نہیں رہی۔یہ بات انہوں نے منگل کو کوئٹہ پریس کلب کے دورے اور بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کے نومنتخب عہدیداروں کو مبارکباد دینے کے موقع پر کوئٹہ پریس کلب کے صدر عبدالخالق رند، بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کے صدر خلیل احمد، جنرل سیکرٹری عبدالغنی کاکڑ، سینئر نائب صدر منظور احمد رند کوئٹہ پریس کلب کے سابق صدر رضا الرحمن اور سینئر صحافیوں سے ملاقات کے موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کہی،
اس موقع پر سابق وفاقی وزیر میر ہمایوں عزیز کرد و دیگر بھی موجود تھے۔ نوابزادہ حاجی میر لشکری خان رئیسانی نے بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کے نومنتخب عہدیداروں کو مبارکباد دیتے ہوئے امید ظاہر کی کہ وہ اپنے قلم کو بلوچستان کی خوشحالی اور اجتماعی قومی ترقی کیلئے بروئے کار لائیں گے انہوں نے کہا کہ کوئٹہ پریس کلب کے ساتھ ہمارا دیرینہ تعلق رہا ہے،
کوئٹہ میں پریس کلب کی بنیاد میرے والد شہید نواب غوث بخش رئیسانی نے رکھی اور تب سے آج تک میرے خاندان اور صحافیوں کے درمیان ایک رشتہ برقرار ہے انہوں نے کہا کہ معاشرے کی رہنمائی میں صحافیوں کا کردار اہمیت کا حامل ہے، بلوچستان کے صحافی آئندہ نسلوں کے وقار کے لیے اپنا کردار ادا کرتے ہوئے قومی نظم کو مضبوط اور کرپشن روکنے کے لیے اپنے قلم کو بروئے کار لائیں تاکہ بحیثیت معاشرہ ہم جس دلدل میں دھنستے جارہے ہیں
اس سے محفوظ رہ سکیں،انہوں نے کہاکہ بلوچستان میں اظہار رائے کی آزادی کھبی نہیں رہی، پیکا ایکٹ اسمبلی سے منظورکرکے سیاسی جماعتوں نے اظہار رائے پر قانونی پابندی لگانے میں اپنا کردار ادا کیا ہے، ایسے رویوں سے معاشر ے بہتر نہیں ہوسکتے، پیکا ایکٹ کے خلاف جاری صحافیوں کی احتجاجی تحریک کی نہ صرف حمایت کرتے بلکہ اس جدوجہد میں صحافیوں کے شانہ بشانہ ہوں گے تاکہ صوبے سے گھٹن کے ماحول کا خاتمہ ہو، انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے لوگ آج اپنے آپ کو عدم تحفظ کا شکار سمجھ رہے ہیں اور غاصب قوتیں ان کے وسائل کو بے دریغ لوٹ رہی ہیں بلوچستان کے موجودہ حالات اسٹیبلشمنٹ اور زرداری کی ملی بھگت کا نتیجہ ہے
اور اس ملی بھگت کا مقابلہ کرتے ہوئے کئی سال پہلے پارٹی عہدے اور سینیٹ کی رکنیت سے احتجاجااستعفی دیا تھا انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے طول و عرض میں شاہراہیں بند، لوگ سراپا احتجاج ہیں تاہم انہیں سننے والا کوئی نہیں، انہوں نے کہا کہ 2024 کے غیرمنصفانہ انتخابات کے نتیجے میں بلوچستان میں جعلی قیادت اور صوبے میں افراتفری مسلط کی گئی جس سے لوگ عدم تحفظ کا شکار ہیں،
انہوں نے کہا کہ سمجھوتے کی سیاست نے آج ملک کو اس نہج پر پہنچا دیا ہے، سیاسی جماعتیں مصلحت کے ذریعے اقتدار میں پہنچتی ہیں انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتوں نے 2024 کے انتخابات سے قبل کوئٹہ کے ایک ہوٹل میں بیٹھ کرصوبے کے حقوق کا سودا کیا انہوں نے کہا کہ بلوچستان کا مسئلہ طبقاتی نہیں قومی تاریخی اور معاشی ہے اور یہاں لوگ اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کررہے ہیں انہوں نے کہا کہ ملک میں آئین و قانون کی بالادستی کہیں نہیں 2018کے الیکشن میں قومی اسمبلی کے حلقے این اے 265پر ہونے والے انتخابی دھاندلی کا فیصلہ سات سال بعد بھی نہیں
آیا اور مقدمہ چل رہا ہے انہوں نے کہا کہ بحیثیت سیاسی کارکن میری ذمہ داری ہے کہ صوبے میں نظریاتی و فکری سیاسی عمل کو آگے لیکر بڑھوں تاکہ معاشرے میں مثبت تبدیلی آسکے انہوں نے بی یو جے کے صدر خلیل احمد اور کابینہ اراکین کو یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ پیکا ایکٹ کے خلاف جاری احتجاجی تحریک کی نہ صرف وہ حمایت کرتے ہیں بلکہ اس جدوجہد میں وہ اور ان کے رفقا صحافیوں کے شانہ بشانہ ہونگے
تاکہ صوبے سے گھٹن کے ماحول کا خاتمہ ہو انہوں نے کہاکہ پیکا ایکٹ کے خلاف بلوچستان ہائیکورٹ میں دائر آئینی درخواست میں وہ بھی فریق بنیں گے اس موقع پر بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کے صدر خلیل احمد نے نوابزادہ حاجی میر لشکری خان رئیسانی کو کوئٹہ پریس کلب آمد پر شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ نوابزادہ حاجی لشکری رئیسانی نے کھبی اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا تمام پیشکشوں اور اقتدار کو ٹھکرا کر بلوچستان کیلیے قربانیاں دی ہیں انہوں نے کہا کہ پیکا ایکٹ کا کالا قانون نافذ کیا گیا ہے جس کے خلاف پی ایف یوجے کی ملک گیر تحریک جاری ہے۔
Leave a Reply